بہار: این ڈی اے نے اپنے پیر پر ماری کلہاڑی، نشستوں کی تبدیلی سے ہوگا نقصان

بی جے پی نے اپنی مضبوط نشست گیا، سیوان ، بھاگلپور اور بانکا جے ٖڈی یو اور ایل جے پی کو دے دی ۔ اس کے بعد بی جے پی کے لیڈروں، کارکنوں اور حامیوں میں زبردست ناراضگی دیکھنے کو مل رہی ہے۔

تصویر سوشل  میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

پٹنہ: بہار میں 17ویں لوک سبھا انتخابات میں قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کی حلیف جماعتیں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، جنتا دل یو نائیٹڈ (جے ڈی یو) اور لوک جن شکتی پارٹی (ایل جے پی) کے درمیان تال میل کے تحت نشستوں کی تبدیلی کے بعد شروع اندرونی خلفشار سے این ڈی اے کی مشکلیں بڑھتی ہوئی معلوم ہو رہی ہیں۔ کچھ لوگ نشستوں کی اس تبدیلی کو نقصاندہ تصور کر رہے ہیں اور کچھ این ڈی اے کے ذریعہ اسے اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے کے مترادف بتا رہے ہیں۔

بہار میں 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے لئے حلیف بی جے پی 17 ، جے ڈی یو ، 17 نشست اور ایل جے پی کی کچھ نشستوں پر انتخابا ت لڑنے کے لئے سمجھوتہ ہو ا ۔ اس کے بعدگزشتہ ہفتہ نشستوں کے علان میں ایک بڑی تبدیلی نظر آئی ۔ بی جے پی نے اپنی مضبوط نشست گیا ( ریزرو ) ، سیوان ، بھاگلپور اور بانکا جے ٖڈی یو اور ایل جے پی کو دے دی ۔ اس کے بعد بی جے پی کے لیڈروں ، کارکنوں اور حمایتوں میں نارضگی نظر آنے لگی ہے ۔

نوادہ نشست سے 2014 میں رکن پارلیمان اور مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے جیت درج کی۔ لیکن سال 2019 کے انتخابات میں یہ نشست مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان کی پارٹی لوک جن شکتی پارٹی کے کھاتے میں چلی گئی ۔اب گری راج سنگھ کے بیگو سرائے پارلیمانی حلقہ سے انتخابات لڑنے کی قیا س ارائیاں ہیں ۔اگرچہ این ڈی اے کے اس فیصلہ سے گری راج سنگھ ناراض ہیں۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر انہیں نوادہ سے انتخابا ت لڑنے کا موقع نہیں دیا گیا تو وہ انتخابا ت ہی نہیں لڑیں گے ۔ انہوں نے نشستوں کی تبدیلی کے تعلق سے بی جے پی کے ریاستی صدر نتیہ آنند رائے پر نارضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا ’’ میں نے ان کے سامنے پہلے کئی مرتبہ نوادہ سے انتخابات لڑنے کی خواہش ظاہر کی ہے اور انہوں نے مجھے یقین دلایا تھاکہ لیکن اب مجھے ان سے پو چھنا ہے کہ ان کی یقین دہا نیوں کا کیا ہوا ‘‘۔

اتنا ہی نہیں اعلی قیادت کے فیصلے سے نوادہ میں بی جے پی کے لیڈر ، کارکن اور حامیوں میں بھی خاصی ناراضگی ہے۔ ذرائع کے مطابق تو بی جے پی طبی فورم کے ریاستی نائب کنوینر ڈاکٹر شتروگھن پرساد سنگھ، سابق ضلع صدر کیدار سنگھ اور ضلع جنرل سکریٹری اروند گپتا نے پارٹی کے اس فیصلے کو خودکش قدم بتایا ہے۔ اس کے علاوہ ڈویژن سطح پر بھی کارکنوں میں کافی غصہ ہے۔ اس پارلیمانی حلقہ پر بی جے پی نے چار مرتبہ قبضہ جمایا ۔ اس نشست پر اس نے پہلی مرتبہ 1996 میں جیت درج کی ۔ اس کے بعد برس 1999، 2009 اور 2014 کے لو ک سبھا انتخابات میں یہ نشست اس کے پاس ہی رہی ۔سال 1996 کے عام انتخابات میں بی جے پی کے ٹکٹ پر میدان میں اترے کامیشور پاسوان نے مارکسی کمیونسٹ پارٹی (سی پی ایم) کے پریم چند رام کو 96914 ووٹوں کے بھاری فرق سے شکست دی تھی۔

اس کے بعد 1999 میں بی جے پی امیدوار سنجے پاسوان (453943) نے راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) امیدوار وجے کمار چودھری (369858)، ڈاکٹر بھولا سنگھ (130608) نے ایل جے پی کی وینا دیوی (95691) اور سال 2014 میں گری راج سنگھ (390248 ) نے آر جے ڈی کے راج ولبھ پرساد (250091) کو شکست دی تھی ۔ اس پارلیمانی حلقہ کی چھ اسمبلی سیٹوں میں سے دو ہسوا اور وارسلی گنج پر بی جے پی جبکہ دیگر چار رجولی ( ریزرو ) اور نوادہ پر آر جے ڈی اور گووند پور اور سکندرا ( ریزو) پر کانگریس کا قبضہ ہے۔ سال 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں قیاس ارائیاں ہیں کہ ہے اس نشست سے لوک جن شکتی پارٹی دبنگ لیڈر سورج بھان کی بیوی وینا دیوی کو اپنا امیدوار بنائے گی ۔

سترہویں لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کا مضبوط گڑھ مانی جا نے والی گیا ( ریزرو ) نشست کے جے ڈی یو کے کھاتے میں جانے سے وہا ں سے مسلسل دو مرتبہ 2009 اور 2014 سے رکن پارلیمان ہری مانجھی نے پارٹی کے ضلع صدر دھن راج شرما کے بہانے اپنی ناراضگی ظاہر کی ہے ۔ انہوں نے شرما پر الزام لگاتے ہوئے گزشتہ منگل کو کہا تھا کہ ان کی سازش کی وجہ سے ہی یہ نشست جے ڈی یو کو مل گئی تاکہ ان کا پتہ صاف ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ شرما نے ایک سازش کے تحت پارٹی کی ریاستی اور مرکزی کمیٹی کو گمراہ کر کے بی جے پی کی روایتی گیا نشست کو جے ڈی یو کی جھولی میں ڈالنے کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔