این آرسی: سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود حکام کا رویہ غیر جانبدارانہ نہیں!

آمسوکے لیڈران نے اسٹیٹ کوآڈینیٹر پرتیک ہزیلا کے طریقہ کار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ آف انڈیا کی ہدایت کے باوجود اسٹیٹ کوآڈینیٹر اس پر عمل نہیں کر رہے ہیں۔

تصویر پریس ریلیز
تصویر پریس ریلیز
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: آسام میں شہریت کے مسئلہ کو کچھ ایسی قانونی پیچیدگیوں میں الجھادیا گیا ہے کہ متاثرین اور عام لوگوں کے سامنے نت نئی رکاوٹیں آکھڑی ہوتی ہیں یا پھر لوگوں کو پریشان کرنے کے لئے دانستہ رکاوٹیں کھڑی کردی جاتی ہیں، ایک طرف تو این آرسی سے باہر کیے گئے لوگ جہاں اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے جان توڑ جدوجہد میں مصروف ہیں وہیں دوسری طرف جن لوگوں کے نام این آرسی میں شامل ہوچکے ہیں اب آبجکشن (اعتراض) کی سہولت کا سہارا لیکر ان کی شہریت کو بھی مشکوک بنانے کی کوشش ہو رہی ہے اور اس میں بڑی حد تک حکام بھی متاثرین کی جگہ ان لوگوں کی مدد کرتے دکھائی دے رہے ہیں جو ایک منصوبہ بند سازش کے تحت ریاست کے حقیقی شہریوں کی شہریت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق این آرسی میں شامل 2 لاکھ ساٹھ ہزار لوگوں کی شہریت کے دعویٰ پر کچھ لوگوں نے اعتراض درج کرایا ہے، چنانچہ اب نئے سرے سے تصدیق اور گواہی کے لئے حکام باقاعدہ نوٹس جاری کرکے انہیں ایسی جگہ طلب کر رہے جو ان کے آبائی مقامات سے سو دو سو نہیں بلکہ پانچ پانچ اور چھ چھ سو کلومیٹر دور ہے اس سے متاثرین کو تصدیق اور گواہی کے عمل کی تکمیل میں زبردست مصیبتوں کا سامنا ہے۔


آسام شہریت معاملہ میں مختلف محاذ پر کامیاب قانونی جنگ لڑنے والی تنظیم جمعیۃ علماء ہند نے اس سلسلہ میں متاثرین کو ہونے والی دشواریوں کو محسوس کرتے ہوئے آمسو کے ساتھ مل کر اپنے وکلاء سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل، سینئر ایڈوکیٹ اندراجے سنگھ اور ایڈوکیٹ آن ریکارڈ فضیل ایوبی کے توسط سے سپریم کورٹ میں دوعرضیاں داخل کی تھیں، ان عرضیوں میں فاضل عدالت کو بتایا گیا تھا کہ جس طرح دوردراز کے مراکز پر تصدیق اور گواہی کیلئے لوگوں کو طلب کیا جا رہا ہے اس سے نہ صرف انہیں سخت دشواریوں کا سامنا ہے بلکہ وہ یکسوئی کے ساتھ تصدیق و گواہی کے عمل کو پورا کرنے میں خود کو لاچار و بے بس بھی محسوس کر رہے ہیں اس لئے اس عمل کو آسان بنایا جانا چاہیے اور گواہی وتصدیق کے لئے لوگوں کو ان کے اپنے آبائی علاقوں کے مراکز پر ہی طلب کیا جانا زیادہ مناسب اور بہتر ہوگا۔

کپل سبل نے یہ کہا کہ شرپسند عناصر آبجکشن فائل کرکے لوگوں کو پریشان کر رہے ہیں اور فرقہ پرست عناصر کی سازش کے تحت لوگوں کے سادے کاغذات پر دستخط کرا کے آبجکشن فائل کر رہے ہیں جس کا ثبوت جمعیۃ علماء ہند کے پاس ہے اور سپریم کورٹ میں داخل کردیا گیا ہے، تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک ایک آدمی کی طرف سے ہزاروں لوگوں کے خلاف آبجکشن کیا گیا ہے اس دھاندلی کا واضح ثبوت یہ ہے کہ 30دسمبر 2018 کوصرف چھ ہزارلوگوں کے خلاف آبجکشن تھا اور اچانک 31دسمبر 2018 کی رات تک دو لاکھ ساٹھ ہزار لوگوں کے خلاف آبجکشن داخل کردیا گیا، کیا چوبیس گھنٹے میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد آبجیکشن کا داخل ہونا ممکن ہے؟


عدالت میں جب وکلاء نے یہ اعتراض کیا کہ لوگ سیکڑوں میل سے اپنے آبجکشن کی تاریخ پر پہنچتے ہیں لیکن آبجکشن کرنے والا نہیں پہنچتا ہے، جس سے لوگوں کو پریشانی ہو رہی ہے اس پر کورٹ نے اسٹیٹ کوآڈینیٹر پرتیک ہزیلا سے کہا کہ قانون کے مطابق اس معاملہ کو بسہولت حل کیا جائے لیکن این آرسی کی آخری تاریخ 31جولائی 2019 ہی ہوگی۔

جمعیۃعلماء ہند اور مختلف تنظیموں کی طرف سے سپریم کورٹ میں ان لوگوں کے متعلق نظرثانی کی اپیل داخل کی تھی جن لوگوں کو فارن ٹریبونل نے غیر ملکی قرار دیا تھا، واضح رہے کہ فارن ٹربیونل کے ذریعہ فارنر قرار دیئے جانے کے بعد یہ لوگ گوہاٹی ہائی کوٹ گئے تھے لیکن گوہاٹی ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ جس کو فارنر ٹربیونل نے فارنر قرار دیدیا ہے اس کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہوسکتی ہے لیکن سپریم کورٹ نے اس فیصلہ کو برقرار رکھتے ہوئے ایک سہولت بھی دی ہے کہ اگر کسی فارنر کا نام این آرسی میں آگیا ہے تو اس پر فارن ٹربیونل کو دوبارہ غورکرنا چاہیے۔


اس عرضی پر چیف جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس اے آرنریمن کی دورکنی بینچ نے سماعت کی تھی اور عدالت نے سماعت کے دوران اسٹیٹ کوآڈینیٹر مسٹر پرتیک ہزیلا سے پوچھا تھا کہ کیوں نہ کم سے کم تکلیف دیتے ہوئے لوگوں کی گواہی اور تصدیق کا عمل ان کے اپنے ضلع اور تحصیل میں مکمل کرایا جائے اس پر پرتیک ہزیلا نے جواب دیا کہ جن کے خلاف خاندانی شجرہ (Family Tree) کو لیکر اعتراضات ہیں اس کے لئے ہماری کوشش ہے کہ گواہی اور تصدیق کا بندوبست مقامی تحصیل یا اسی سرکل میں کیا جائے اس پر فاضل عدالت نے اپنا حکم جاری کرتے ہوئے انہیں یہ ہدایت کی کہ درخواستوں میں جو گزارشات کی گئیں ہیں ان کو نظر میں رکھتے ہوئے لوگوں کو حتی الامکان سہولت فراہم کی جائے اور کم سے کم فاصلہ پر طلب کرکے تمام کارروائیاں مکمل کی جائیں۔

قابل ذکر ہے کہ شہریت کی دفعہ 141 کے تحت یہ آزادی فراہم کی گئی ہے کہ کوئی بھی شخص کسی دوسرے کی شہریت پر اعتراض کرسکتا ہے اس دفعہ کو لیکر جمعیۃعلماء ہند کے وکلاء نے عدالت میں سخت اعتراض کیا تھا اور دلیل دی تھی کہ بعض لوگ محض ذاتی دشمنی میں بھی اس آزادی کا فائدہ اٹھاکر کسی کی شہریت پر اعتراض اٹھا سکتے ہیں اس لئے اعتراض غلط ثابت ہونے پر اس دفعہ میں سزا کا بھی التزام ہونا چاہیے تاکہ کسی پختہ ثبوت کے بغیر کوئی کسی کی شہریت پر اعتراض اٹھانے کا حوصلہ نہ کرسکے مگر تب عدالت نے اس درخواست کو نامنظور کر دیا تھا اور اب اسی آزادی کا فائدہ اٹھاکر کچھ لوگوں نے ذرائع کے مطابق دو لاکھ ساٹھ ہزار لوگوں کی شہریت پر سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔


جمعیۃعلماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے اس قانونی پیش رفت پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے اس فیصلہ سے اب گواہی اور تصدیق کے عمل میں لوگوں کو قدر آسانی میسر ہوجائے گی تاہم انہوں نے آبجیکشن کے نام پر ہونے والی اس سنگین دھاندلی پرسخت افسوس کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ آبجیکشن کرنے والے اگر وقت پر نہیں پہنچتے تو ان کے آبجکیشن کے کلیم کو ختم کردیا جائے اور یہ بھی کہا کہ ریاست کے حقیقی شہریوں کے تعلق سے متعلقہ حکام کا رویہ غیر جانبدارانہ نہیں ہے چنانچہ وہ لوگوں کو مدد اور سہولت فراہم کرنے کی جگہ ان کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کرتے آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند نے بہت پہلے دفعہ 141 کے تحت دی گئی آزادی کے تعلق سے جس خدشہ کا اظہار کیا تھا بالآخر سچ ثابت ہوا، اس آزادی کا غلط استعمال کرتے ہوئے بعض لوگوں نے ایسے لوگوں کی شہریت پر دوبارہ اعتراض کھڑے کر دیئے ہیں جو اپنی شہریت پہلے ہی ثابت کرچکے ہیں اور جن کا نام این آرسی میں شامل ہوچکا ہے مگر اب ایسے لوگوں کو نوٹس جاری کرکے تصدیق اور گواہی کے لئے جس طرح ریاست کے دور دراز علاقوں میں طلب کیا گیا ہے وہ حکام کے عدم تعاون رویہ کو ظاہر کر دیتا ہے انہوں نے کہا کہ ان لوگوں میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو انتہائی غریب اور غیر تعلیم یافتہ ہیں انہیں سفر اور دیگر مصارف کو لیکر سخت دشواریاں درپیش ہیں۔


انہوں نے کہا کہ امید افزا بات یہ ہے کہ عدالت نے آج ان لوگوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کی باضابطہ ہدایت جاری کردی ہے اس لئے ہم امید کرتے ہیں کہ اعتراض کا شکار ہوئے یہ تقریباً دو لاکھ ساٹھ ہزار لوگ گواہی اور تصدیق کے اس نئے عمل سے بھی سرخرو ہوکر باہر نکلیں گے، مولانا مدنی نے آخرمیں کہا کہ آسام میں دفعہ 141کے تحت دی گئی آزادی کا غلط استعمال ہورہا ہے ایسے میں ریاستی حکومت بالخصوص اسٹیٹ کوآڈینیٹر کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس دفعہ کا غلط استعمال آگے نہ ہو تاکہ اس سے پیدا ہونے والی دشواریوں سے لوگ محفوظ رہ سکیں۔ قابل ذکر ہے کہ صدر جمعیۃ علماء آسام مولانا مشتاق عنفر این آرسی کے کام کو شروع ہی سے دیکھ رہے ہیں، عدالتی کارروائی کے دوران جمعیۃ علماء آسام اپنی ریاستی یونٹوں کے ساتھ موجود رہتے ہیں۔

آج جنترمنتر پر صبح گیارہ بجے سے ایک بجے تک جمعیۃعلماء ہند کے تعاون سے آمسو اور مختلف حقوق انسانی کی تنظیموں نے اس کو لے کر دھرنا دیا اور اپنے مطالبات کا میمورنڈم ہوم سکریٹری، رجسٹرار جنرل آف انڈیا اور جوائنٹ ہوم سکریٹری کو سونپا ہے، جس میں اس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کی ایس اوپی میں یہ ہدایت لکھی ہوئی تھی کہ آبجکٹر کا نام مع مکمل پتہ درج ہونا چاہیے اور یہ بھی ہونا چاہیے کہ اس نے کس بنیاد پر آبجکشن کیا ہے۔


لیکن یہاں حکام کے غیر ذمہ دارانہ رویہ کی وجہ سے سپریم کورٹ کی ہدایت کونظرانداز کرتے ہوئے آبجکٹرکے نام و پتہ کے بغیر آبجکشن کو قبول کرلیا ہمارا مطالبہ ہے کہ آبجکشن کے کام کو جلد ازجلد مکمل کیا جائے اور اگر آبجکشن کرنے والا حاضرنہیں ہوتا ہے تو اس کے آبجکشن کو ختم کردیا جائے اور سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق این آر سی کے تمام امور کو مکمل کیا جائے۔ آمسوکے لیڈران نے اسٹیٹ کوآڈینیٹر پرتیک ہزیلا کے طریقہ کار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ آف انڈیا کی ہدایت کے باوجود اسٹیٹ کوآڈینیٹر اس پر عمل نہیں کر رہے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسٹیٹ کوآڈینیٹر کورٹ کی ہدایت کی جگہ اسٹیٹ حکومت کے اشارے پر کام کر رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */