این سی-کانگریس اتحاد نےلگائی جھاڑو ، کارگل الیکشن میں 26 میں سے 22 سیٹیں جیتی

انتخابات کو مرکزکے اگست 2019 میں جموں و کشمیر کی تقسیم پر ریفرنڈم کے طور پر پیش کرتے ہوئے، نیشنل کانفرنس  کا کہنا ہے کہ نتائج سے بی جے پی کو جھٹکا لگا۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

نیشنل کانفرنس-کانگریس کے اتحاد نے 26 رکنی لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل (ایل اے ایچ ڈی سی) کارگل کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے اور جھاڑو لگاتے ہوئے22 نشستیں حاصل کیں۔ جب سے لداخ کو 2019 میں یونین ٹیریٹری (UT) کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا یہ پہلے انتخابات تھےواضح رہے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)  صرف دو سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی۔

نیشنل کانفرنس  جو کہ پین انڈیا انڈین نیشنل ڈیولپمنٹ انکلوسیو الائنس (انڈیا) کا ایک حصہ ہے، نے 12 نشستیں حاصل کیں، جبکہ کانگریس نے 10 نشستیں حاصل کیں۔ انڈیا کے شراکت دار بی جے پی سے ایک سیٹ پر ہار گئے جہاں انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف امیدوار کھڑے کیے تھے اور دوستانہ مقابلہ ہوا تھا۔ دو نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔


انتخابی مہم کے دوران، نیشنل کانفرنس نے 5 اگست 2019 کو مرکز کے اقدامات پر ایک ریفرنڈم کے طور پر انتخابات کو پیش کیا، جب جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی پوزیشن ختم ہو گئی اور ریاست کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ جبکہ بی جے پی نے یہ انتخابات 2019 کے بعد خطے میں شروع کیے گئے ترقیاتی اقدامات پر لڑا تھا۔

نیشنل کانفرنس  کے نائب صدر عمر عبداللہ نے انگریزی روزنامے’ دی ہندو ‘کو بتایا۔ "یہ بی جے پی کی سیاست کا زبردست انکار  ہے۔کارگل کے لوگوں نے دکھایا ہے کہ وہ 5 اگست 2019 کو ان کے ساتھ جو سلوک کیا گیاوہ  اس کی حمایت یا اس سے اتفاق نہیں کرتے۔‘‘


4 اکتوبر کو ہونے والے انتخابات میں 74,026 رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 77.61فیصد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ ’’یہ انتخابی نتائج بی جے پی کے لیے جاگنے کی کال کے طور پر کام کریں گے۔ اب وقت آگیا ہے کہ راج بھون اور غیر منتخب نمائندوں کے پیچھے چھپنا بند کیا جائے اور اس کے بجائے جموں و کشمیر میں جمہوری طور پر منتخب حکومت کی عوام کی جائز خواہش کو تسلیم کیا جائے۔ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ عوام کی آواز سنی جائے اور ان کا احترام کیا جائے۔‘‘

کانگریس کے سینئر لیڈر جے رام رمیش نے پارٹی کی کارکردگی کو راہل  گاندھی کے دورے کا سہرا  قرار دیا۔ مسٹر رمیش نے کہا، ’’یہ [نتائج] راہل گاندھی کا لداخ میں گزشتہ ماہ جاری ’بھارت جوڑو یاترا‘ کا براہ راست اثر ہے۔‘‘


اگرچہ نیشنل کانفرنس -کانگریس کا "قبل از انتخابات اتحاد" تھا، لیکن انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف امیدواروں کو میدان میں اتارا جسے انہوں نے "دوستانہ مقابلہ" قرار دیا۔ درحقیقت، یہ پہلا الیکشن تھا جس کا سامنا انڈیا بلاک کے شراکت داروں کو ہوا، جب سے حزب اختلاف کا  انڈیا اتحاد جولائی میں قائم ہوا تھا۔

تاہم، ایک "دوستانہ مقابلے" میں اتحاد کو کارگل کے زنسکار علاقے میں ایک نشست کی قیمت ادا کرنا پڑی۔ بی جے پی نے 177 ووٹوں کے فرق کے ساتھ، بدھ مت کی اکثریت والے سٹاکچے کھنگرال حلقہ میں، جہاں کل 2,565 ووٹ ڈالے گئے، ایک چھوٹی سی جیت حاصل کی۔ بی جے پی کی جیتنے والی امیدوار، پدما دورجے نے 1,007 ووٹ حاصل کیے، اس کے بعد کانگریس کے سید حسن کو 830 ووٹ ملے، اور این سی کے غلام حسین نے 479 ووٹ حاصل کیے، اگر وہ مل کر لڑتے تو NC-کانگریس کا اتحاد 1,309 ووٹ حاصل کر سکتا تھا۔بی جے پی نتائج سے زیادہ خوش نہیں ہے، اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے کہ لداخ میں بی جے پی کا ایک ایم پی ہے اور اس علاقے پر 2019 سے مرکز کی براہ راست حکومت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔