نواب سراج الدولہ: ایسٹ انڈیا کمپنی اور غداروں کے ناپاک گٹھ جوڑ کا پہلا شکار...برسی کے موقع پر خصوصی پیشکش

ننگ قوم وملت کے سبب نہ صرف محب وطن نواب سراج الدولہ کی بہیمانہ ہلاکت منظر عام پر آئی بلکہ انگریزوں کو 190 سال تک ہندوستان کے تقربیاً 45 کھرب ڈالر لوٹنے کا موقع فراہم کیا

نواب سراج الدولہ / شاہد صدیقی علیگ
نواب سراج الدولہ / شاہد صدیقی علیگ
user

شاہد صدیقی علیگ

چوبیس سالہ نوجوان نواب مرزا محمد سراج الدولہ کی کمان میں لڑی گئی معرکہ پلاسی کا شمار برصغیر کی ان اہم اور فیصلہ کن جنگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ہندوستان کی تاریخ کا رخ موڑ دیا تھا۔ جسے رابرٹ کلائیو نے عصری ہتھیاروں، عمدہ حکمت عملی یا شجاعت کے بجائے مکر و فریب، ریشہ دوانیوں اور جال سازیوں سے جیتی تھی۔ فتح پلاسی کے بعد کمپنی کو اپنے استعماری عزائم کی تکمیل کے لیے ملکہ وکٹوریہ کے خزانوں کی ضرورت نہ رہی۔

انگریز مورخ مالیسن بڑی بے باکی اور صاف گوئی سے لکھتا ہے کہ یہ کوئی منصفانہ جنگ نہیں تھی۔ کون شک کر سکتا ہے کہ اگر سراج الدولہ کے تین مرکزی سپہ سالار اپنے سردار کے وفادار رہتے تو پلاسی جنگ نہیں جیتی جا سکتی تھی۔ میر مدن خان کی موت سے پہلے انگریزوں نے پیش قدمی نہیں کی تھی۔ کلائیو کی فوج جب ہی آگے بڑھی جب نواب کی فوجوں کو پر اثر مورچہ سے ہٹا دیا گیا تھا ورنہ کلائیو کے لشکر کی تباہی و بربادی طے تھی۔


سراج الددلہ 10 اپریل 1756 کو بنگال کی گدّی پر تخت نشیں ہوئے جو ایک کانٹوں کے تاج سے کم نہیں تھی۔ جہاں بغض، کینہ اور حرص و طمع کے پیکر میر جعفر، راجہ درلب رام، مہاراجہ سروپ چند، سیٹھ امی چند اور جگت سیٹھ وغیرہ کی ایک ایسی ٹولی موجود تھی، جس میں وقت گزرنے کے ساتھ دیوان مانک چند، نند کمار، راجہ نواکرشن، یار لطف خاں، خان خداداد، خان لیتے، راجہ راج ولبھ، مہاراج کرشن چند، راجہ ’بناکرشنا دیپ، رتن سرکار، سکھ دیو، ملک نائن چند ملک، دیا رام باسو، نیل منی مترا اور ہرے کرشن ٹھاکر وغیرہ بھی شامل ہوتے گئے۔ جن کی وساطت سے کمپنی نے بنگال کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سازشوں کا جال بچھا دیا۔

نواب سراج الدولہ نے کمپنی کی توسیع پسند سرگرمیوں پر قدغن لگانے کی پوری کوششیں کیں۔ ان کی فوج نے 4 جون 1756 کو قاسم بازار پر اور 20 جون کو کلکتہ پر مسخر کر لیا۔ کلکتہ کا گورنر ڈریک ہال ویل کو ذمہ داری سونپ کر مدراس بھاگ گیا، اگر نواب سراج الدولہ چاہتے تو و ہمیشہ کے لیے کمپنی ناسور کو جڑ سے مٹا دیتے مگر ان کی رحم دلی نے انہیں ایسا کرنے سے باز رکھا۔ نیز سراج الدولہ کے دربار میں جب یورپین قیدی پیش کیے گئے تو انہوں نے معاف کرتے ہوئے ان سب کی جان بخش دی۔ مگر اس صلہئ رحمی کا بدلہ نمک حرام ہال ول نے فرضی بلیک ہال افسانہ گھڑ کر چکایا۔


کلکتہ کے واقعات سن کر انگریزوں پر نزع کی کیفیت طاری ہو گئی۔ انہوں نے سراج الدولہ کے عزائم دیکھ کر شطرنج کی بساط بچھانے کا فیصلہ کیا۔ جس کی کمان عیار رابرٹ کلائیو نے سنبھالی۔ اس نے میرجعفر کو خط لکھا کہ ”اگر تم نے سراج الدولہ سے بغاوت کی اور ہمارا ساتھ دیا تو تمہیں بنگال کا نواب بنا دیں گے۔“ حالات کے مدنظر دوراندیش نواب سراج الدولہ نے مغل بادشاہ، مرہٹوں، والی اودھ اور فرانسیسیوں سے مدد کی التجا کی مگر سب بے سود، ہر طرف سے مایوس سراج الدولہ نے غدار میر جعفر کو ہر زاویے سے سمجھانے کی پوری کوشش کی، یہاں تک کہ نواب سراج الدولہ نے اس کے پیروں میں اپنی پگڑی تک ڈال دی تھی، دغاباز میرجعفر نے سراج الدولہ کے سامنے قرآن مجید پر جھوٹی قسم کھائی۔ تمام سودی بازی اور سازباز کے بعد رابرٹ کلائیو نے پیش قدمی شروع کی۔

غداروں کی کارستانیوں سے 23 جون 1757 کو صرف چار گھنٹوں میں میدان پلاسی میں رابرٹ کلائیو کے تین ہزار سپاہیوں کے ہاتھوں سراج الدولہ کی تیس ہزار پیادوں، پندرہ ہزار گھوڑسواروں اور 40 توپوں پہ مشتمل ایک قوی فوجی لشکر کو ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ اس شکست نے نواب کی زندگی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی تقدیر کا فیصلہ کر دیا۔ سراج الدولہ کو اونٹ پر بیٹھ کر میدان جنگ سے مفرور ہونا پڑا۔ وہ طلوع آفتاب کے ساتھ ہی مرشد آباد سے امان کی تلاش میں بھاگوان گولہ ہوتے ہوئے دو دن بعد محل کے کنارے پر پہنچے۔ تین روز کی بھوک پیاس سے نڈھال سراج الدولہ نے مع ساتھیوں کے فقیر شاہ دانا کی خانقاہ میں کھچڑی سے اپنی بھوک مٹانے کے لیے قیام کیا، مگر فقیر کے بھیس میں شیطان نے بروقت سراج الدولہ کے دشمنوں کو اس کی خبر پہنچا دی۔ اطلاع ملتے ہی میر جعفر کے داماد میر قاسم نے سراج الدولہ کو گھیر لیا۔


سراج الدولہ کو 2 جولائی 1757 کو گرفتار کر کے مرشد آباد لایا گیا اور آدھی رات کو نمک حرام دیوڑی میں میر جعفر کے سامنے پیش کیا گیا۔ سراج الدولہ نے اقتدار کے بھوکے میر جعفر سے اپنی جان کی خیر مانگی لیکن میر جعفر کا 17 سالہ بیٹا میر میران کے دل میں کچھ اور ہی چل رہا تھا۔ اس نے میر جعفر سے کہا کہ آپ آرام کریں، میں ان کو سنبھال لوں گا۔ میران نے اپنے ایک ساتھی محمد علی بیگ عرف لعل محمد کو نواب سراج الدولہ کو مارنے کا حکم دیا۔ جب سفاک میران اپنے ساتھیوں کے ساتھ سراج الدولہ کے پاس پہنچا تو انہیں اندازہ ہوگیا تھا، چنانچہ انہوں نے مرنے سے پہلے نماز پڑھنے کی اجازت مانگی لیکن ظالم اتنی عجلت میں تھے کہ اپنا کام جلد از جلد ختم کر نے کے لیے نواب سراج الدولہ کے سر پر پانی سے بھرا برتن اونڈیل دیا۔ ان کی نیت بھانپ کر انہوں نے پیاس بجھانے کے لیے پانی طلب کیا لیکن اسی اثنا میں یکایک محمد علی بیگ نے سراج الدولہ پر خنجر سے حملہ کرکے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔

ننگ قوم وملت کے سبب نہ صرف محب وطن نواب سراج الدولہ کی بہیمانہ ہلاکت منظر عام پر آئی بلکہ انگریزوں کو 190 سال تک ہندوستان کے تقربیاً 45 کھرب ڈالر لوٹنے کے ساتھ ساتھ انمول رتنوں اور نادر اشیا سے انگلستان کے عجائبات بھی بھرنے کا موقع فراہم ہوا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔