جموں و کشمیر: قانون ساز اسمبلی میں ہنگامہ، نیشنل کانفرنس کا واک آؤٹ

ریاستی حکومت وادی میں امن وامان کی بحالی کا دعویٰ کرتی ہے لیکن اتوار کے روز سری نگر کے پائین شہر میں 17 برس بعد عملی طور پر کریک ڈاون کا آغاز کیا گیا: نیشنل کانفرنس لیڈر

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

جموں وکشمیر کی گرمائی دارالحکومت سری نگر کے پائین شہر میں کارڈن اینڈ سرچ آپریشن (کاسو) کی 17 برس بعد واپسی اور فوجی سربراہ جنرل بپن راوت کے ریاست کے اسکولوں میں دوہرے نقشوں سے متعلق بیان پر پیر کو یہاں قانون ساز اسمبلی میں شدید ہنگامہ آرائی ہوئی ۔ تفصیلی بحث کی اجازت نہ ملنے اور حکومت کی طرف سے بیان سامنے نہ آنے کے بعد اپوزیشن نیشنل کانفرنس کے اراکین نے ایوان سے احتجاجاً واک آوٹ کیا۔ قابل ذکر ہے کہ سیکورٹی فورسز نے اتوار کے روز سری نگر کے حبہ کدل اور اس سے ملحقہ علاقوں میں کارڈن اینڈ سرچ آپریشن شروع کیا جس کے دوران مقامی شہریوں کی جامہ تلاشی لینے کے علاوہ ان کے موبائیل فونوں میں موجود معلومات بھی چیک کی گئیں۔

اس سے قبل فوجی سربراہ نے 12 جنوری کو قومی راجدھانی نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ جموں وکشمیر کے اسکولوں میں مکمل بھارت کے بجائے جموں وکشمیر کا نقشہ الگ سے دکھاکر طالب علموں کے اذہان میں غلط باتیں بٹھائی جارہی ہیں۔ تاہم ریاستی وزیر تعلیم سید محمد الطاف بخاری نے اس بیان پر اپنی فوری ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ (فوجی سربراہ) ریاست کو تعلیم پر خطبات نہ دیں۔

پیر کی صبح جوں ہی قانون ساز اسمبلی کی کاروائی شروع ہوئی تو نیشنل کانفرنس اراکین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوجی سربراہ کے بیان اور سری نگر میں ’کاسو‘ کی واپسی پر ایوان میں بیان دیں۔ تاہم احتجاجی این سی اراکین نے وزیر تعلیم الطاف بخاری کے بیان کی سراہنا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے فوجی سربراہ کو مناسب اور بروقت جواب دیا ہے۔ این سی کے سینئر لیڈر و جنرل سکریٹری علی محمد ساگرنے کہا کہ جہاں ریاستی حکومت وادی میں امن وامان کی بحالی کا دعویٰ کرتی ہے، وہیں اتوار کے روز سری نگر کے پائین شہر میں 17 برس بعد عملی طور پر کریک ڈاون کا آغاز کیا گیا۔ انہوں نے کہا ’ابھی جنوبی کشمیر میں آپریشن آل آوٹ چل ہی رہا تھا کہ فوجی سربراہ نے کہا کہ اس کو اب شمالی اور وسطی کشمیر شفٹ کیا جائے گا۔ عملی طور پر سری نگر کے پائین شہر میں 17 برس بعد کریک ڈاون کیا گیا۔ میں حیران ہوں۔ یہ سرکار ایک طرف کہہ رہی ہے کہ ہم امن کی طرف بڑھ رہے ہیں اور حالات درست ہورہے ہیں۔ لیکن 1990 ء سے بھی بدتر پوزیشن کو پیدا کررہے ہیں‘۔

ساگر نے الزام لگایا کہ حکومت وادی کے حالات مزید خراب کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا ’کل جب آرمی چیف نے آپریشن آل آوٹ کو شفٹ کرنے کا اعلان کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کو اس کی پہلے سے ہی خبر تھی۔ کیا اب آپ وسطی اور شمالی کشمیرمیں بھی جنوبی کشمیر جیسی صورتحال پیدا کرنا چاہتی ہیں؟ میں حیران ہوں کہ یہ حکومت حالات ٹھیک کررہی ہے یا حالات کو مزیدخراب کرنے پر تلی ہوئی ہے‘۔

این سی رکن نے کہا ’سری نگر سٹی میں کل چار جگہوں پر کریک ڈاون کیا گیا۔ میرا یہ مطالبہ ہے کہ سرکار کی طرف سے اس پر ایک بیان سامنے آئے۔ آخر ماجرا کیا ہے۔ کل وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ایک مناسب بیان دیاکہ بنکروں کی تعمیر سے دوریاں پیدا کی جارہی ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ وزیر اعلیٰ کو معلوم ہی نہیں ہے کہ ریاست کو بنکروں کی تعمیر کے لئے ساڑھے چار لاکھ روپے دیے گئے ہیں۔ جب چیف منسٹر کو معلوم نہیں تو حکومت کون چلا رہا ہے۔ دہلی سے ایک اور فوج سے دوسری ڈائریکشن آتی ہے۔ یہ حکومت کون چلا رہا ہے؟ وزیر تعلیم کا بیان بالکل صحیح اور بروقت تھا۔ لیکن بی جے پی نے ان کے بیان کی مذمت کی۔ یہ کیا ماجرا ہے‘۔ انہوں نے حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ’اگر انہوں نے سری نگر میں پھر سے کریک ڈاون کیا تو یہ مسئلہ بن جائے گا‘۔

اسمبلی میں سی پی آئی ایم کے اکلوتے رکن محمد یوسف تاریگامی نے فوجی سربراہ کے بیانات پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’مجھے یہ بتائیں کہ یہاں کی کمانڈ کن ہاتھوں میں ہے۔ آرمی کا اپنا کام ہے۔ اس میں مداخلت کی گنجائش نہیں ہے۔ ہم سے کہا جاتا ہے کہ کشمیر میں ملٹری اور سیاسی اپروچ کی ضرورت ہے۔

وزیر اعلیٰ یہاں آئیں اور ہمیں بتائیں کہ وہ موجودہ سیاسی صورتحال سے کس طرح نمٹ رہی ہیں‘۔ تاہم جب این سی کے اراکین اسپیکر کویندر گپتا کے جواب سے مطمئن نہیں ہوئے تو انہوں نے ’ناگپور سرکار ہائے ہائے، بی جے پی سرکار ہائے ہائے اور آر ایس ایس سرکار ہائے ہائے‘ کے نعرے لگاتے ہوئے ایوان سے احتجاجاً واک آوٹ کیا۔

این سی رکن میاں الطاف احمد نے اسمبلی کے باہر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا ’ واک آوٹ ہم نے دو چیزوں پر کیا ہے۔ ایک تو آرمی چیف کابیان جو انہوں نے اسکولوں پر دیا ہے اور دوسرا جو سری نگر، گاندربل اور بارہمولہ میں تلاشی آپریشنز شروع کئے گئے ہیں۔ اگر حکومت اسمبلی کے اندر اور باہر یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ریاست کے حالات بہتر ہیں تو پھر کریک ڈاون کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

ہمارا مطالبہ یہی تھا کہ حکومت بتائے کہ اگر حالات ٹھیک ہیں تو کریک ڈاون، آپریشنز اور گرفتاریاں کیوں ہورہی ہیں؟ دوسرا مسئلہ جس پر ہم نے واک آوٹ کیا، وہ یہ تھا کہ آرمی چیف نے بیان دیا ہے۔ ہمارا اس پر کہنا تھا کہ آرمی چیف کو ریاست کے معاملات پر میڈیا کے سامنے بیان بازی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ہماری تشویش کو حکمران جماعت پی ڈی پی نے توثیق کردی ہے‘۔

این سی رکن محمد اکبر لون نے کہا ’آرمی چیف نے بالکل غلط کہا ہے۔ وزیر تعلیم الطاف بخاری نے ٹھیک کہا ہے کہ فوجی سربراہ اپنا کام کریں اور مجھے اپنا کام کرنے دیں۔ ہمارا یہ ماننا ہے کہ فوج کو ریاست کے تعلیمی نظام میں کوئی مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ اس میں فوج کے دخل کی ضرورت ہی نہیں ہے‘۔ علی محمد ساگر نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے حکومت کو بے سمت قرار دیتے ہوئے کہا ’ ہم نے ان کو رول 12 کے تحت بحث کے لئے نوٹس دی تھی۔ وادی سے شائع ہونے والے اخبارات کے مطابق کاسو جس کی وجہ سے جنوبی کشمیر میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے، کو اب یہ وسطی و شمالی کشمیر میں شروع کرنے جارہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سرکار بے سمت ہے۔

اگر آپریشن آل آوٹ وسطی اور شمالی کشمیر میں شروع ہوا تو ہر طرف تباہی مچے گی۔ ایک طرف کہتے ہیں کہ ہم پنچایت الیکشن کریں گے لیکن دوسری طرف سے کہتے ہیں کہ آپریشن آوٹ کو وسعت دی جائے گی۔ کل ڈاون ٹاون میں پانچ جگہوں پر تلاشیاں لی گئیں۔ اگر یہ کہتے ہیں کہ ہم نے ملی ٹنسی کی کمر توڑ دی ہے تو پھر یہ آپریشنز اور کریک ڈاون کیوں؟ یہ شبانہ چھاپے کیوں؟ سرکار کو جواب دینا ہوگا۔ ان کو جواب دینا ہوگا۔ وزیر تعلیم کا بیان بالکل درست ہے۔ اسکولوں میں مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ ایسا لگ رہا ہے کہ مسئلے کا فوجی حل نکالنا چاہتے ہیں۔بلکہ اس مسئلے کے لئے سیاسی حل اختیار کیا جانا چاہیے‘۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔