ملک اور مسلمانوں کو مولانا آزاد جیسے قائد کی ضرورت... برسی پر خاص

قیام پاکستان کے بعد مجاہد آزادی مولانا ابوالکلام آزاد نے دہلی کی جامع مسجد میں مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے جو بات کہی تھی وہ سب کچھ ہوا اور ہو رہا ہے۔

گرافکس قومی آواز
گرافکس قومی آواز
user

قومی آوازبیورو

’’پاکستان کے قیام کا صرف ایک ہی نتیجہ نکلا ہے اور وہ یہ ہے کہ بر صغیر میں مسلمانوں کی حیثیت کمزور ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ ہندوستان میں رہ جانے والے کروڑوں مسلمان جو اب اگست تک ہندؤوں کے ظلم کا شکار رہیں گے اور پاکستان میں بسنے والے مسلمان ان کی کوئی بھی مدد نہ کر سکیں گے اور اسی طرح سے پاکستان میں بسنے والے مسلمان جس معاشرتی اور اقتصادی کمزوری اور سیاسی پسماندگی کا شکار رہیں گے۔ اسی طرح ہندوستان میں بسنے والے مسلمان ان کی کوئی مدد نہ کر سکیں گے۔ کیا یہ بات غور کرنے کی نہیں ہے کہ جب تقسیم کی بنیاد ہی ہندو اور مسلمان کی عداوت پر رکھی گئی تھی تو پاکستان کے قیام سے یہ ایک آئینی شکل اختیار کر گئی ہے اور اس کا حل اب اور زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔ اسی طرح یہ دونوں ملک خوف و حراس کے تحت اپنے اپنے ملک کے فوجی اخراجات بڑھانے پر مجبور رہیں گے اور معاشی ترقی سے محروم ہوتے چلے جائیں گے‘‘۔ قیام پاکستان کے بعد مجاہد آزادی مولانا آزاد نے دہلی کی جامع مسجد میں مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی تھی اور اس کو سننے کے بعد ایسا لگتا ہے جیسے ان کو آنے والے دن بالکل صاف دکھا ئی دے رہے ہوں۔ جو انہوں نے کہا تھا وہ سب کچھ ہوا اور ہو رہا ہے۔

مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت کا احاطہ کرنا ایسا ہے جیسے کسی سمندر کی حد بندی کرنا ۔ دانشور، دور اندیش سیاست داں، مفکر، فلسفی ، خطیب ، صحافی اور عالی مرتبہ مجتہد جیسے القاب میں بھی ان کو قید نہیں کیا جا سکتا ۔ مولانا نے صرف ہندوستان کی آزادی میں اہم کردار ادا نہیں کیا اور نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ آزادی کے بعد وزیر تعلیم کی حیثیت سے انہوں نے ملک کو بہت کچھ دیا ۔ مولانا ایسی شخصیت کے مالک تھے کہ زندگی کے ہر شعبہ میں ان کی گراں قدر خدمات ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مولانا کے علم اور صلاحیتوں کا فائدہ مہاتما گاندھی ، نہرو اور پٹیل نے اٹھایا لیکن مسلمانوں نے ان کی صلاحیتوں کو پہچانا ہی نہیں اور ان کو کانگریس کے قائد کے طور پر دیکھتے رہے۔

مولانا ابوالکلام آزاد 1888 میں دنیا کے مقدس ترین مقام مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے ۔ عربی آپ کی مادری زبان تھی 1895 میں وہ کلکتہ پہنچے ۔ یہاں ان کی باقاعدہ تعلیم شروع ہوئی ۔ اللہ نے انہیں حافظہ اور ذہانت کی دولت سے فراخ دلی کے ساتھ نوازا تھا ۔ انہوں نے تیرہ چودہ برس کی عمر میں فقہ ، حدیث ، منطق اور ادبیات پر عبور حاصل کرلیا تھا ۔ اپنے والد مولانا خیر الدین کے علاوہ مولوی ابراہیم ، مولوی محمد عمر ، مولوی سعادت حسن وغیرہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ آپ نے دس گیار برس کی عمر میں شعر گوئی کا آغاز کیا اور مولوی عبدالواحد کی تجویز پر آزاد تخلص پسند کیا ۔ بعد میں نثر نگاری کی طرف توجہ کی ۔ مولانا کا عقیدہ تھا کہ قرآن ہماری زندگی کے ہر شعبے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے ۔ مولانا کی ادبی ، سماجی ، تاریخی اور سیاسی تحریروں میں قرآن کے حوالے موجود ہیں ۔

مولانا کی زندگی کا بڑا حصہ ادبی اور سیاسی میدان میں گزرا ۔ آپ نے بہت سے رسالوں میں مضامین لکھے اور کئی ادبی رسالے شائع کئے ۔ مولانا نے 31 جولائی 1906 ء کو ہفت روزہ ’’الہلال‘‘ کا پہلا شمارہ شائع کیا ۔ اس کا اہم مقصد ہندوؤں اور مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنا تھا ۔ حکومت نے الہلال پریس کو ضبط کرلیا تو مولانا نے ’’البلاغ‘‘ کے نام سے دوسرا اخبار جاری کیا۔ مولانا جیسے ایک بے باک صحافی تھے ویسے ہی مقرر بھی تھے ۔مولانا جہاں تقسیم وطن کے سخت خلاف تھے وہیں وہ مسلمانوں پر پڑنے والے اثرات کو لے کر بھی بے چین تھے ’’ یہ ہندوستان میں بسنے والے مسلمان کمزور ہو جائیں گے اور ایک ایسا وقت بھی آ سکتا ہے جب پاکستان کے علاقائی باشندے اپنی اپنی جداگانہ حیثیتوں کا دعوی لے کر اٹھ کھڑے ہوں گے ۔ اگر تم بنگال میں جا کر آباد ہو جاؤ گے تو ہندوستانی کہلاؤ گے، اگر تم صوبہ پنجاب میں جاکر آباد ہو جاؤ گے تو ہندوستانی کہلاؤ گے، اگر تم صوبہ سرحد اور بلو چستان میں جا کر آباد ہو جاؤ گے تو تم ہندوستانی کہلاؤ گے ، اگر تم صوبہ سندھ میں جا کر آباد ہو جاؤ گے تو ہندوستانی کہلاؤ گے اور جب یہ قومیں خود کو مستقل قرار دینے لگیں تو ذرا غور کرو اس وقت تمہاری پوزیشن پاکستان میں بن بلائے مہمان کی طرح لازم اوربے کسارا نہ رہ جائے گی۔ دیکھو اور غور کرو ہندو تمہارا مذہبی مخالف تو ہو سکتا ہے لیکن وطنی مخالف نہیں ہو سکتا اور تم اس صورتحال سے نپٹ سکتے ہو مگر پاکستان میں تمہیں کسی بھی وقت قومی اور وطنی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘‘۔

مولانا تحریر فرماتے ہیں ’’اسلام کسی ایسے اقدار کو جائز تسلیم نہیں کرتا جو شخصی ہو یا چند تنخواہ دار آفیسروں کی بیوروکریسی ہو وہ آزادی اور جمہوریت کا ایک مکمل نظام ہے جو نوع انسانی کو اس کی چھینی ہوئی آزادی واپس دلانے کے لئے آیا ہے اور خدا کے سوا کسی انسان کو سزاوار نہیں کہ بندگان خدا کو اپنا محکوم اور غلام بنائے‘‘ ۔

مولانا آزاد جنگ آزادی کے ایک ہیرو ہی نہیں تھے اور وہ صرف مسلمانوں کے لئے تعمیری سوچ و فکر رکھنے والے شعلہ بیان مقرر اور بیدار جید عالم دین ہی نہیں تھے بلکہ انگریزوں کے خلاف لڑنے والے مجاہد آزادی کے لئے ایک حوصلہ مند سپہ سالار بھی تھے ۔ مولانا مذہب کے نام پر کسی بھی کام کے خلاف تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’آج میں یہ بات ببانگ دہل کہہ رہا ہو ں کہ جن مسلمانوں نے تقسیم کا خواب دیکھا تھا اور اسلامی جمہوریت کی بنیاد ڈالنے کی بات کی تھی ، آج ان کی بات قبول ہو گئی اور ہم گنہگاروں کی دعائیں کام میں نہ آئیں مگر میں آج یہ بات بھی دو روپے کے کاغذ پر لکھ سکتا ہوں کہ جس چیز پر بھی مذہبی جنون کا عملی جامہ پہنایا جاتا ہے وہ لمبی مدت تک کامیاب نہیں ہو پاتا۔ مجھے صاف نظر آ رہا ہے کہ پاکستان بھی دو حصوں میں بٹ جائے گا۔ ایک جانب مذہبی جنون والے تو دوسری جانب جدید تہذیب والے ہوں گے اور ان دونوں میں جب ٹکراؤ ہوگا تو پورے پاکستان میں بے چینی پھیل جائے گی‘‘۔ مولانا کا یہ پیغام صرف پاکستان نواز لوگوں کے لئے نہیں تھا بلکہ آج بھی یہ پیغام اتنا ہی صحیح ہے جتنا اس وقت تھا۔ پاکستان اور ہندوستان کی موجودہ قیادت کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

مولانا ملک اور کانگریس پارٹی کے لئے اندھیرے میں چراغ کی حیثیت رکھتے تھے ۔ انہوں نے زندگی کے آخری لمحے تک ملک و قوم کی خدمت کرکے ثابت کردیا کہ وہ ہندوستان کے سچے سپوت ہیں ۔ مولانا کی قومی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے گاندھی جی نے کہا تھا ’’مولانا انڈین نیشنل کانگریس کے اعلی ترین سردار ہیں اور ہندوستانی سیاست کا مطالعہ کرنے والے ہر ایک شخص کو چاہئے کہ وہ اس حقیقت کو نظر انداز نہ کرے‘‘ ۔

طویل جد وجہد کے بعد جب ملک کو آزادی ملی تو ملک میں عبوری حکومت قائم ہوئی ۔ ابتداً مولانا آزاد اس میں شریک نہیں تھے لیکن پنڈت نہرو کے اصرار پر حکومت میں شامل ہوئے اور وزارت تعلیم اور سائنسی تحقیقات کے قلم دان کی ذمہ داری بہ حسن وخوبی نبھائی ۔ بقول آزاد ’’وزارت تعلیم کی ذمہ داری سنبھالتے ہی میں نے پہلا فیصلہ جو لیا وہ یہ تھا کہ ملک میں اعلی و فنی تعلیم کے حصول کے لئے سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ خود ہم اپنی ضرورتیں پوری کریں ۔ میں اس دن کا منتظر ہوں جب ہندوستان میں باہر سے لوگ آکر سائنس اور فنی تعلیم میں تربیت حاصل کریں‘‘۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 22 Feb 2018, 8:02 PM
/* */