لکھنؤ: لولو مال میں محض 18 سیکنڈ کی ’نماز‘ نے بہت کچھ واضح کر دیا!

ایک وقت کی نماز پڑھنے میں کم از کم 7 سے 8 منٹ کا وقت لگتا ہے، لیکن لولو مال میں نماز پڑھنے والے نوجوان اتنی جلدی میں تھے کہ محض 18 سیکنڈ میں ہی نماز پوری کر لی اور اس کی ویڈیو بھی بنائی۔

لکھنؤ کے ’لولو مال‘ میں نماز ادا کرتے ہوئے لوگ
لکھنؤ کے ’لولو مال‘ میں نماز ادا کرتے ہوئے لوگ
user

قومی آواز تجزیہ

کئی دن کے تنازعہ اور ہندو تنظیموں کے ہنگامہ کے بعد اب اتنا تو ثابت ہو ہی گیا ہے کہ لکھنؤ کے لولو مال میں نماز کسی سوچی سمجھی سازش کے تحت پڑھی گئی تھی۔ ہفتہ کی صبح دن بھر مال کے سی سی ٹی وی فوٹیج کھنگالنے کے بعد پولیس اس نتیجہ پر پہنچی کہ نماز کے نام پر کچھ لوگ قصداً مال میں پہنچے، نماز پڑھی، ویڈیو بنائی اور نکل گئے۔ سی سی ٹی وی کا سچ سامنے آنے کے بعد ڈی سی پی گوپال گویل کو ہٹا دیا گیا ہے اور سوشانت گولف سٹی تھانہ کے انسپکٹر اکشے پرتاپ سنگھ کو لائن حاضر کر دیا گیا ہے۔ فوٹیج میں نظر آئے چہروں کی بنیاد پر پولیس اب ان کی تلاش میں مصروف ہو گئی ہے۔ دعویٰ ہے کہ جلد ہی انھیں گرفتار کر لیا جائے گا۔

ہفتہ کی صبح دن بھر ہوئے ہنگامہ، ہندو تنظیموں کے بار بار ہنومان چالیسا پڑھنے کی کوششوں کے درمیان پولیس کمشنر ڈی کے ٹھاکر نے کل دوپہر بعد اچانک مداخلت کی، جس کے بعد مال پر ہنگامہ کر رہے تقریباً 20 لوگوں کو گرفتار کر پولیس نے جیل بھیج دیا۔ لاپروائی برتنے کے الزام میں شام تک انسپکٹر کو لائن حاضر کیا اور گوسائیں گنج کے انسپکٹر کو ذمہ داری سونپ دی۔ دیر رات تک جائزہ کے بعد رات 11 بجے ڈی سی پی ساؤتھ گوپال کرشن چودھری کو بھی مال پر ہنگامہ اور تنازعہ قابو کرنے میں ناکام رہنے کے لیے ہٹا کر کرائم سیل سنبھالنے کی ذمہ داری دے دی۔


نماز یا سازش؟

لولو مال میں نماز پڑھے جانے سے متعلق سماجی و ثقافتی تنظیم کسی سازش کا الزام لگا رہے تھے۔ لوگوں نے تصویر اور ویڈیو میں نماز پڑھنے کے طریقے پر ہی سوال اٹھائے اور سازش کا اشارہ کیا تھا۔ نماز پڑھنے کی پہلی ویڈیو سامنے آتے ہی کچھ ہندوتوا تنظیمیں سرگرم ہوئیں تبھی مزید ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں ایک تنہا نوجوان نماز پڑھتا نظر آیا۔ اسی درمیان ہفتہ کو کچھ مزید نوجوانوں نے بھی کوشش کی، لیکن سیکورٹی گارڈس نے انھیں بھگا دیا۔ ہنگامہ بڑھتا دیکھ کر مال انتظامیہ نے سی سی ٹی وی فوٹیج کھنگالنے کے لیے کچھ وقت مانگا تھا۔

سچ سے پردہ اٹھا:

ریاست ہی نہیں ایشیا کے سب سے بڑے مال ہونے کا دعویٰ کرنے والے لولو مال کا افتتاح وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے 10 جولائی کو کیا۔ مال میں جمع غیر معمولی بھیڑ کے سبب یہ خوب سرخیاں بنا۔ اس کے ٹھیک دو دن بعد مال میں آٹھ نوجوان پہنچے۔ وہاں نماز پڑھی اور اس کی ویڈیو 13 جولائی کو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ فوٹیج سے صاف ہو رہا تھا کہ نماز مال کی دوسری منزل پر پڑھی گئی تھی۔ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ہندو تنظیموں نے ہنگامہ شروع کر دیا۔ پولیس پوری طرح سرگرم ہوتی کہ اگلے ہی دن پھر ایک ویڈیو وائرل ہو گئی۔ اسی کے بعد مال کے پبلک رلیشن افسر نے سوشانت گولف سٹی تھانہ میں کیس درج کرایا تھا۔


پولیس کے مطابق سی سی ٹی وی فوٹیج میں صاف نظر آ رہا ہے کہ اندر داخل ہونے کے ساتھ ہی یہ سبھی نماز پڑھنے کے لیے بیٹھنے کی کوشش کرنے لگے۔ اس پر گراؤنڈ فلور پر تعینات سیکورٹی اہلکاروں نے انھیں روکا۔ پھر یہ پہلی منزل پر بھی گئے جہاں بھیڑ بھی تھی اور سیکورٹی اہلکاروں نے یہاں بھی انھیں روک دیا۔ یہ سب دوسری منزل پر پہنچے جہاں کچھ جگہ خالی تھی اور وہیں نماز پڑھنی شروع کر دی۔ پولیس کے مطابق ویڈیو فوٹیج میں صاف ہے کہ آٹھ نوجوانوں نے مال میں انٹری لی۔ دو نوجوان ویڈیو بنانے لگے اور باقی نماز پڑھنے بیٹھ گئے۔ اے ڈی سی پی جنوب راجیش کمار شریواستو کا ماننا ہے کہ وہ لوگ جس طرح سے نماز پڑھ رہے ہیں یا پڑھنے بیٹھے ہیں، اسی سے صاف ہے کہ وہ صرف سازش کے تحت مال میں نماز پڑھنے گئے تھے۔ انھیں نماز کی اے بی سی بھی نہیں معلوم ہے۔ اے ڈی سی پی نے کہا کہ فوٹیج میں نظر آ رہے ملزمین کو نشان زد کرنے کے لیے ٹیم تیار کی گئی ہے، جلد ہی انھیں گرفتار کر لیا جائے گا۔

محض 18 سیکنڈ میں مکمل ہو گئی نماز:

غور کرنے والی بات یہ ہے کہ ایک وقت کی نماز پڑھنے میں کم از کم 5 سے 7 منٹ کا وقت لگتا ہے، لیکن نماز پڑھنے والے یہ لوگ اتنی جلدی میں تھے کہ محض 18 سیکنڈ میں ہی نماز پوری کر لی اور اس کی ویڈیو بھی بنائی۔ سماجی کارکن طاہرہ حسن، جنھوں نے پہلے ہی نماز پڑھنے کے طور طریقے پر سوال اٹھاتے ہوئے سازش کا اشارہ کیا تھا، کہتی ہیں کہ ’’نماز پڑھنے والے نوجوانوں نے صحیح قبلہ کا بھی خیال نہیں رکھا۔ انھیں اس کی کوئی جانکاری بھی شاید نہیں ہوگی کہ نماز ہمیشہ کعبہ کی طرف رخ کر کے پڑھی جاتی ہے جو جنوب-مغرب سمت کی طرف ہے۔ جب کہ ان نوجوانوں کا رخ پوری طرح سے مغرب کی طرف ہے۔ نماز پڑھنے کے وقت سبھی کا چہرہ ایک طرف ہونا چاہیے۔ لیکن ویڈیو میں نماز پڑھنے والے نوجوانوں میں ایک کا چہرہ دوسری سمت میں ہے تو باقی دیگر کے چہرے دوسری طرف ہیں۔ یہ ایک سیدھ میں بھی نہیں بیٹھے ہیں، اور ویڈیو بنانے کی ہڑبڑی صاف نظر آ رہی ہے۔‘‘


نہ گھومنا نہ خریداری، صرف نماز پڑھتے ہوئے ویڈیو بنانا اور نکل لینا:

پولیس کے ہاتھ لگے فوٹیج میں صاف نظر آ رہا ہے کہ سبھی نوجوان ایک ساتھ مین گیٹ سے داخل ہو رہے ہیں۔ اس کے بعد سیکورٹی اہلکاروں سے بچتے بچاتے سبھی ساتھ ساتھ پہلے گراؤنڈ فلور، پھر پہلی منزل، اور وہاں بھی روکے جانے کے بعد دوسری منزل پر گئے۔ ایک بھی نوجوان کسی شو روم میں نہیں گیا۔ نہ ہی احاطہ میں گھومنے کی کوشش کی۔ مال میں جہاں تصویر کھینچنے کھنچانے کی بھیڑ لگی تھی، ان میں سے کسی نے اُدھر دیکھا تک نہیں۔ بس نماز پڑھنے کا موقع تلاش کرتے نظر آئے اور موقع ملتے ہی بیٹھ گئے۔ نماز پڑھنے کے دوران ویڈیو بنایا اور اس کے بعد باہر نکل گئے۔ کوئی اندر نہیں رکا۔ ان میں سے کئی نوجوانوں کے پاس تو نماز پڑھنے کے لیے کوئی صاف کپڑا بھی نظر نہیں آیا۔

اب کھمن پیر بابا کی مزار نشانے پر:

لولو مال تنازعہ اور پولیس کی سرگرمی کے باوجود عوامی مقامات پر ریکارڈ کی گئی اس طرح کی ویڈیوز سامنے آنے کا سلسلہ تھم نہیں رہا ہے۔ جمعہ کو ہی لکھنؤ کے چار باغ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر 3 پر ایک نوجوان کے نماز پڑھنے کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی۔ اس کے بعد ہندوتوا تنظیموں نے پھر ہنگامہ شروع کر دیا۔ اس ویڈیو کے بعد ہندو مہاسبھا کے کنوینر ششر چترویدی اور کچھ دیگر ہندوتوا تنظیموں کے لیڈران نے چارباغ ریلوے اسٹیشن پر پٹریوں کے درمیان بنے کھمن پیر بابا کی مزار کو ہٹانے کا مطالبہ شروع کر دیا ہے۔ کھمن پیر بابا کی درگاہ کےنام سے مشہور یہ مزار 900 سال قدیم بتائی جاتی ہے اور یہاں دور دور سے ہندو-مسلم عقیدتمند اپنی منت لے کر پہنچتے ہیں۔ یہ درگاہ شاہ سید قائم الدین کی آخری پناہ گاہ ہے۔ لولو مال تنازعہ کے بعد ایک بار پھر کھمن پیر بابا کی مزار کو ہٹانے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا ہے۔ ہندو تنظیمیں پہلے بھی اسے ہٹانے کے لیے آواز اٹھاتی رہی ہیں، یہ الگ بات ہے کہ کھمن پیر بابا کی اس درگاہ پر مسلمانوں سے زیادہ ہندو اپنی منت لے کر پہنچتے ہیں اور ان کی بھی اس میں گہری عقیدت ہے۔


بہرحال، لولو مال تنازعہ کے پیش نظر سماجی کارکن دیپک کبیر اس تعلق سے کہتے ہیں کہ جس طرح نماز پڑھنے سے زیادہ توجہ ویڈیو بنانے اور اسے وائرل کرنے پر دی جا رہی ہے اسی سے ارادے صاف ہو جاتے ہیں۔ اسے سمجھنے اور انتظامیہ کو بھی اسی کے مطابق سرگرم ہونے کی ضرورت ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ لکھنؤ جیسے گنگا-جمنی تہذیب والے شہر میں نفرت بونے والی ایسی کوششیں فکر انگیز ہیں۔ سابق پولیس افسر پرشانت شریواستو کا ماننا ہے کہ موجودہ دور میں جس طرح مذہبی پولرائزیشن بڑھا ہے، وقت رہتے ایسے واقعات کو نہ روکا گیا تو کسی بڑی مشکل کے اندیشہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔