ناگپور فرقہ وارانہ تشدد: اشتعال انگیزی کے الزام میں فہیم خان گرفتار، تحقیقات جاری

ناگپور میں فرقہ وارانہ تشدد کے معاملے میں مائنارٹی ڈیموکریٹک پارٹی کے سیاستدان فہیم خان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ واقعے میں 38 افراد زخمی ہوئے، جن میں 33 پولیس اہلکار شامل ہیں

<div class="paragraphs"><p>ناگپور میں تشدد کا منظر / آئی اے این ایس</p></div>

ناگپور میں تشدد کا منظر / آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

ناگپور: مہاراشٹر کے ناگپور میں حالیہ فرقہ وارانہ تشدد کے معاملے میں اقلیتی ڈیموکریٹک پارٹی کے مقامی سیاستدان فہیم خان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ پولیس کا الزام ہے کہ خان نے عوام کو اشتعال دلایا اور ہنگامے بھڑکانے میں کردار ادا کیا۔ تاہم، شہر میں کشیدگی اس احتجاج کے بعد بڑھی، جس میں مغل بادشاہ اورنگزیب کی قبر کو ہٹانے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔

پولیس کے مطابق، فہیم خان کو جمعہ تک حراست میں رکھا جائے گا اور ان سے مزید پوچھ گچھ کی جائے گی۔ تشدد کے سلسلے میں اب تک 6 مقدمات درج کیے جا چکے ہیں اور 1200 افراد کے خلاف شکایتیں درج ہیں، جن میں سے 200 کی شناخت ہو چکی ہے، جبکہ باقی کی تلاش جاری ہے۔

مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ دیویندر فڑنویس اور نائب وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے نے واقعے کو ’منصوبہ بند سازش‘ قرار دیا ہے۔ تشدد کا آغاز وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسے گروہوں کی جانب سے گھاس کی گٹھری سے بنائی گئی علامتی قبر کو نذر آتش کرنے کے بعد ہوا۔ فڈنویس کے مطابق اس کے بعد افواہیں پھیلائی گئیں کہ ایک مذہبی کتاب کی بے حرمتی کی گئی ہے، جس نے کشیدگی کو ہوا دی۔


جمعہ کی نماز کے بعد تقریباً 250 افراد نے احتجاج کیا اور نعرے بازی کی۔ پولیس کے مطابق جب ہجوم میں اشتعال بڑھا اور تشدد کے آثار نظر آئے تو فورسز نے مداخلت کی۔

خیال رہے کہ ناگپور، جہاں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا ہیڈکوارٹر ہے، پیر کی رات تشدد کی لپیٹ میں آ گیا۔ مظاہرین نے دکانوں اور گھروں میں توڑ پھوڑ کی، گاڑیوں کو آگ لگا دی اور پولیس اہلکاروں پر پٹرول بم اور پتھراؤ کیا۔

پولیس رپورٹ کے مطابق 38 افراد زخمی ہوئے، جن میں 33 پولیس اہلکار شامل ہیں۔ ایک افسر پر کلہاڑی سے حملہ کیا گیا۔ خواتین اہلکاروں کے ساتھ بدسلوکی اور جنسی ہراسانی کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں۔ صورتحال کی شدت کے پیش نظر 10 تھانوں کے تحت علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔

اپوزیشن رہنما ادھو ٹھاکرے نے بی جے پی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اورنگزیب کو مرے ہوئے 300 سال ہو چکے ہیں اور ان کا مقبرہ ایک محفوظ تاریخی مقام ہے، ایسے میں اس مسئلے کو اچھالنے کا کوئی جواز نہیں۔ ادھو ٹھاکرے کے بیٹے آدتیہ ٹھاکرے نے تشدد کو حکومت کی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کی سازش قرار دیا اور اس صورتحال کو منی پور میں ہونے والے نسلی تشدد سے تشبیہ دی۔

وہیں، وزیراعلیٰ فڑنویس نے عوام کے جذبات کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ اورنگزیب کے مقبرے کو ہٹانے کا مطالبہ قانونی دائرے میں رہ کر ہی ممکن ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔