روتی بلکتی ماؤں کو دیکھ کر میرا دل ٹوٹ جاتا ہے: محبوبہ مفتی

محبوبہ مفتی ظاہری طور پر نیشنل کانفرنس کے کارگزار صدر و سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے الزامات و تنقیدوں پر اپنا ردعمل ظاہر کررہی تھیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

سری نگر: جموں وکشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے جنوبی کشمیر کے دو اضلاع شوپیان اور اننت ناگ میں ایک ہی دن کے اندر پیش آئی 20 ہلاکتوں کے تناظر میں کہا ہے کہ ہم سب کو سیاسی اختلافات ایک طرف چھوڑ کر نئے طریقوں پر غور کرکے نوجوانوں تک پہنچنے اور پائیدار حل تلاش کرنے کے لئے کام کرنا چاہیے تاکہ خون ریزی کا سلسلہ ختم ہو اور نوجوان نسل کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔

انہوں نے کشمیری نوجوانوں کے جنگجوؤں کی صفوں میں شمولیت اختیار کرنے کے رجحان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر روز میرا دل ٹوٹ جاتا ہے جب میں بیٹے کو واپس لوٹنے کی آواز دیتی روتی بلکتی ماں کو دیکھتی ہوں۔

محبوبہ مفتی نے ان باتوں کا اظہار مائیکرو بلاگنگ کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے دو سلسلہ وار ٹوئٹس میں کیا۔ وہ ظاہری طور پر نیشنل کانفرنس کے کارگزار صدر و سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے الزامات و تنقیدوں پر اپنا ردعمل ظاہر کررہی تھیں۔ انہوں نے کہا ’اتوار سے پیش آئے تشدد کے واقعات اس حقیقت کی سنگین یاد دہانی ہے کہ اس طرح کے موقعوں پر ہم سب کو سیاسی اختلافات ایک طرف چھوڑ کر نئے طریقوں پر غور کرکے نوجوانوں تک پہنچنے اور پائیدار حل تلاش کرنے کے لئے کام کرنا ہے تاکہ خون ریزی کا سلسلہ ختم ہو اور نوجوان نسل کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے‘۔


انہوں نے کہا ’ہر روز میرا دل ٹوٹ جاتا ہے جب میں بیٹے کو واپس لوٹنے کی آواز دیتی روتی بلکتی ماں کو دیکھتی ہوں۔ تو کیا ہم اپنے الزامات اور جوابی الزامات ایک طرف چھوڑ سکتے ہیں اور اپنے نوجوانوں کو بچانے کے لئے مل کر کوئی راستہ تلاش کریں‘۔

بتادیں کہ عمر عبداللہ نے بڑی تعداد میں کشمیری نوجوانوں کی جنگجوؤں کی صفوں میں شمولیت کو وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی سب سے بڑی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنوبی کشمیر کے شوپیان اور اننت ناگ اضلاع میں اتوار کو مارے گئے بیشتر جنگجو نئے ریکروٹ تھے۔

انہوں نے مفتی کی وادی میں غیرموجودگی پر انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ نے ثابت کیا ہے کہ وہ کشمیر میں غیرمتعلق ہیں۔ عمر عبداللہ نے اپنے سلسلہ وار ٹوئٹس میں کہا ’محبوبہ مفتی کی سب سے بڑی ناکامی جس پر بہت کم بحث ہوئی ہے، یہ ہے کہ جنگجوؤں کی صفوں میں شمولیت اختیار کرنے والے کشمیری نوجوانوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے‘۔

عمر عبداللہ نے جنگجوؤں کی صفوں میں شمولیت میں اضافے کو حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان مظفر وانی کی جولائی 2016ء میں ہوئی ہلاکت کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے کہا ’مابعد برہان وانی غیض وغضب کی پیداوار۔ اتوار کو مارے گئے بیشتر جنگجو نئے ریکروٹ تھے‘۔

انہوں نے کہا ’جن 12 جنگجوؤں کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے، ان میں سے 11 مقامی کشمیری ہیں جبکہ بارہویں جنگجو کی شناخت کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک بھی جنگجو کو غیرملکی قرار نہیں دیا گیا ہے۔ کیا دہلی میں اقتدار میں بیٹھے لوگوں میں سے کوئی اس رجحان سے پریشان نہیں؟ میں تو بہت پریشان ہوں‘۔

وادی میں گذشتہ تین ماہ کے دوران چھ نوجوانوں نے اعلاناً عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی ہے۔ سیکورٹی ایجنسیوں کے مطابق کشمیری نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے ہتھیار اٹھانے پر تیار کیا جاتا ہے۔

عمر عبداللہ نے وزیر اعلیٰ محترمہ مفتی جو قومی راجدھانی نئی دہلی کے دورے پر گئی تھیں، پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا ’یہ سب کچھ ہورہا ہے لیکن وزیر اعلیٰ نے اپنے دورے کو مختصر کرنے کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا۔ ایسا کیا ضروری کام تھا کہ وزیر اعلیٰ کا وہاں موجود رہنا ضروری تھا؟‘۔ انہوں نے کہا ’محبوبہ مفتی نے قبول کرلیا ہے کہ وہ کشمیر میں غیرمتعلق ہیں۔ تین مسلح تصادموں میں بھاری جانی نقصان کے چوبیس گھنٹے بعد بھی وہ واپس سری نگر لوٹ کر نہیں آئیں‘۔

ریاستی حکومت کے مطابق وادی میں سال 2015، 2016 اور 2017 کے دوران 280 نوجوانوں نے عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی ہے۔ 2015 میں 66، 2016 میں 88 اور 2017 میں 126 نوجوانوں نے عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی ہے۔ تاہم جموں وکشمیر پولس کے اعداد وشمار کے مطابق وادی میں گذشتہ تین مہینوں کے دوران کم ازکم ڈیڑھ درجن مقامی جنگجوؤں نے سیکورٹی فورسز کے سامنے خودسپردگی اختیار کی یا اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 03 Apr 2018, 9:34 AM