’بلڈوزر جسٹس کے خلاف دیا گیا میرا فیصلہ سب سے اہم‘، سبکدوشی سے عین قبل سی جے آئی گوئی کا اظہارِ خیال

بی آر گوئی نے کہا کہ ’’بلڈوزر جسٹس قانون کے خلاف ہے، صرف اس لیے کسی شخص کا گھر کیسے گرایا جا سکتا ہے کہ اس پر کسی جرم کا الزام ہے یا وہ اس کے لیے قصوروار ہے؟ اس کے خاندان اور والدین کی کیا غلطی ہے؟‘‘

<div class="paragraphs"><p>سی جے آئی بی آر گوئی / تصویر ’انسٹاگرام‘</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی)  بی آر گوئی 23 نومبر کو اپنے عہدہ سے ریٹائر ہو رہے ہیں۔ یہ وکیل سے ملک کے سی جے آئی بننے تک کے طویل سفر کا اختتام ہے۔ ان کے ساتھیوں نے انہیں جذباتی طریقہ سے الوداع کہا، ان کی ایمانداری، سادگی اور بھیم راؤ امبیڈکر سے متاثر جوڈیشل فلسفہ کو یاد کیا، جس نے تاریخی فیصلوں کو ایک جہت دی اور ادارہ جاتی کاموں کو مضبوط کیا۔ بی آر گوئی نے اپنے پرانے فیصلوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ بلڈوزر جسٹس کے خلاف دیا گیا ان کا فیصلہ سب سے اہم تھا۔ ساتھ ہی ریاستوں کی نوکری میں ریزرویشن کے لیے ایس سی-ایس ٹی کو سب-کوالیفائی کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ بھی کافی سرخیوں میں رہا۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے الوداعی پروگرام میں سی جے آئی گوئی نے مذکورہ بالا فیصلوں کا تذکرہ عوامی طور پر کیا۔ یہ روایت سے ہٹ کر تھا، کیونکہ یہ پہلا موقع تھا جب کسی سی جے آئی کے ذریعہ اپنے فیصلوں کا ذکر الوداعی تقریب میں کیا گیا ہو۔ سی جے آئی گوئی نے کہا کہ اگر ان سے ان کے ذریعہ لکھا گیا سب سے ضروری فیصلہ منتخب کرنے کے لیے کہا جائے تو وہ ’بلڈوزر جسٹس‘ کے خلاف سنایا گیا فیصلہ ہوگا۔


چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی نے کہا کہ بلڈوزر جسٹس قانون کے خلاف ہے۔ صرف اس لیے کسی شخص کا گھر کیسے گرایا جا سکتا ہے کہ اس پر کسی جرم کا الزام ہے یا وہ اس کے لیے قصوروار ہے؟ اس کے خاندان اور والدین کی کیا غلطی ہے؟ رہنے کی جگہ کا حق ایک بنیادی حق ہے۔ سی جے آئی گوئی نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے فیصلوں سے مطمئن ہیں، کیونکہ انہوں نے بلڈوزر جسٹس کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔

واضح رہے کہ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے جب انھوں نے ’بلڈوزر جسٹس‘ کے خلاف بولا ہو۔ اس سے قبل ماریشس میں بھی انہوں نے بلڈوزر جسٹس کی تنقید کی تھی۔ بی آر گوئی نے بلڈوزر کارروائی پر اپنے ہی 2024 کے فیصلے کا ذکر کیا تھا، جسے ’بلڈوزر کیس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس فیصلہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ’’اس فیصلہ میں ایک واضح پیغام دیا گیا ہے کہ ہندوستانی عدالتی نظام قانون کی حکمرانی سے چلتا ہے، بلڈوزر کی حکمرانی سے نہیں۔‘‘