مظفرنگر: کوال واقعہ پر سزا کا اعلان، شاہنواز خاندان کے 7 ملزمان کو عمر قید کی سزا

گورو اور سچن قتل معاملہ میں مقتول شاہنواز خاندان کے 7 افراد کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی ہے، شاہنواز کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ ہمارے لوگوں کو سزا دے دی گئی لیکن دوسری طرف کے قاتل آزاد کھوم رہے ہیں۔

تصویر آس محمد
تصویر آس محمد
user

قومی آوازبیورو

مظفر نگر کے کوال گاؤں میں 2 نوجوانوں گورو اور سچن قتل کے معاملہ میں اے ڈی جے کورٹ نے تمام 7 ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ بدھ کو عدالت نے تمام ملزمان کو قصوروار قرار دیا تھا۔ گزشتہ سماعت کے دوران سزا کے اعلان کے لئے آج کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔ یہ معاملہ 5 سال قبل 27 اگست 2013 کو پیش آیا تھا جس کے بعد مظفر نگر میں فسادات بھڑک گئے تھے۔ ان فسادات میں 60 سے زیادہ لوگوں کی موت ہوئی تھی اور ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے تھے۔

جن 7 ملزمان کو سزا سنائی گئی ہے وہ مقتول شاہنواز کے خاندان سے وابستہ ہیں، الزام ہے کہ سچن، گورو اور ان کے کچھ ساتھیوں نے شاہنواز پر چاقو سے حملہ کیا تھا جس میں اس کی موت ہو گئی تھی۔ حملہ کر کے جب یہ لوگ بھاگ رہے تھے تو موقع پر ہی گاؤں والوں نے انہیں پکڑ لیا تھا۔ دیگر ساتھی تو فرار ہونے میں کامیاب رہے لیکن گورو اور سچن کو گاؤں والوں نے پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا۔

جن سات ملزمان کو سزا سنائی گئی ہے ہے وہ سب ہلاک شدہ شاہنواز کے خاندان سے وابستہ ہیں۔ دو شاہنواز کے سگے بھائی ہیں جبکہ دو تایازاد بھائی ہیں۔ شاہنواز کی بیوی کی صدمہ کی وجہ سے موت ہو چکی ہے اور ان کے والد سلیم کی ہمت جواب دینے لگی ہے۔

معاملہ سے وابستہ سرکاری وکیل آشیش کمار تیاگی نے میڈیا کو بتایا کہ 2013 میں سچن اور گورو نامی دو نوجوان اور ملزمان میں موٹر سائیکل کی ٹک کے بعد تنازعہ ہوا تھا۔ اس میں دو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ دوسری طرف کے شاہنواز کی بھی اس دوران موت ہو گئی تھی۔

مقتول گورو کے والد نے جانسٹھ کوتوالی میں کوال کے مجسم، مزمل، فرقان، ندیم، جہانگیر، افضال اور اقبال کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرایا تھا۔ وہیں مقتول شاہنواز کے والد نے بھی سچن اور گورو کے علاوہ ان کے خاندان کے 5 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی لیکن ایس آئی ٹی نے جانچ کے بعد شاہنواز قتل کے مقدمہ میں ایف آر (حتمی رپورٹ) لگا کر معاملہ کو بند کر دیا۔

قبل ازیں، ساتوں ملزمان کو قصوروار قرار دینے کے بعد مقتول شاہنواز کے والد سلیم نے قومی آواز سے کہا تھا، ’’پولس نے میرے بیٹے کے قتل کے مقدمے کو کمزور کیا ہے اور ایف آئی آر صحیح طریقہ سے درج نہیں کی گئی۔ اس وجہ سے ہمارا مقدمہ عدالت میں 4 سال بعد داخل ہو پایا ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں، ’’میں اب انصاف کی امید کھوچکا ہوں۔ اب میرا اللہ ہی میرے ساتھ انصاف کرے گا۔‘‘

واضح رہے کہ حال ہی میں اتر پردیش حکومت نے سال 2013 میں ہوئے مظفر نگر فسادات کے 38 مقدمات کو واپس لینے کی سفارش کی تھی۔ ان مقدمات کو واپس لینے کی منظوری 29 جنوری کو مظفرنگر ضلع عدالت کو بھیجی گئی تھی۔ اتر پردیش حکومت نے 10 جنوری کو ان مقدمات کو واپس لینے پر مہر لگا دی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */