مظفر نگر: لاٹھیوں سے ’توپ‘ کی حفاظت! پولیس پھر بھی چھین لے گئی، کسان برہم

اتراکھنڈ سے متصل قصبہ پور قاضی کے کسان کھیت سے برآمد ہونے والی برطانوی دور کی ’توپ‘ کو ’اے ایس آئ‘ کے حوالے کرنے سے انکار کر رہے تھے اور اس کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کے لئے تیار تھے

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

آس محمد کیف

پور قاضی (مظفر نگر): اتر پردیش کے پور قاضی سے ایک دلچسپ خبر منظر عام آئی ہے کہ یہاں کے کسان برطانوی راج کی اس توپ کی دن رات پہریداری کر رہے ہیں کو ایک کھیت سے برآمد ہوئی تھی۔ کسانوں کی طرف سے تین دن تک ’قدیمی توپ‘ کی حفاظت کرنے کے درمیان گزشتہ رات پولیس آئی اور اس توپ کو اپنے قبضہ میں لے لیا گیا۔ آدھی رات میں توپ کو اپنے قبضہ میں لئے جانے پر اے ڈی ایم (ایڈیشنل ضلع مجسٹریٹ) مظفر نگر امت کمار کے مطابق توپ کو محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) کی ٹیم کے پاس تجربہ کے لئے بھیجا گیا ہے۔ دراصل مقامی باشندگان توپ کو انتظامیہ کے حوالے کرنے پر احتجاج کر رہے تھے اور اس کی حفاظت پر مامور تھے۔

اتراکھنڈ سے متصل قصبہ پور قاضی کے کسان کھیت سے برآمد ہونے والی توپ کو ’اے ایس آئ‘ کے حوالے کرنے سے انکار کر رہے تھے اور اس کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کے لئے تیار تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک مقامی کسان تنظیم نے ایک مضبوط قد و قامت لوگوں کی ایک ٹیم پر بھی ذمہ داری عائد کی تھی کہ وہ توپ کی حفاظت کریں اور لاٹھیوں سے توپ کی حفاظت کی جا رہی تھی۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز

یہ توپ پیر کے روز پورقاضی کے گاؤں ہری نگر میں ایک کسان ونود کشیپ کے کھیت سے برآمد ہوئی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق توپ کا وزن پچاس ٹن ہے۔ پرقاضی کے چیئرمین ظہیر فاروقی نے بتایا کہ ’’سن 1857 کے غدر میں یہاں کےھ لوگوں نے انگریز کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا، اس میں 417 ہندوستانی شہید ہوئے تھے جن میں سے 72 افراد یہاں سے تھے۔‘‘


انہوں نے بتایا کہ انقلابیوں کی بہادری کی وجہ سے انگریزوں اپنا گولہ بارود اور توپ چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ اس وقت یہ توپ مٹی میں دبی رہ گئی۔ تقریباً 40 سال قبل بھی یہاں سے دو توپیں برآمد ہوئی تھیں جو مظفر نگر میں ڈی ایم اور ایس ایس پی کی رہائش گاہ پر رکھی گئی ہیں۔ ظہیر کہتے ہیں کہ یہ توپیں پور قاضی کی کی شاندار تاریخ کی علامت ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ہم اس توپ کو سولی والے باغ میں یادگار کے طور پر نصب کرنا چاہتے تھے۔‘‘ واضح رہے کہ اننگریزوں نے پور قاضی کے ایک باغ میں سینکڑوں مجاہدین آزادی کو پھانسی پر لٹکایا تھا، اس باغ کو اب سولی والے باغ کے طور پر جانا جاتا ہے۔

چیئرمین پورقاضی ظہیر فاروقی کے اس عہد کو مقامی کاشتکاروں کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ بھارتیہ کسان یونین (بی کے ڈی) کے ترجمان راکیش ٹکیت نے اپنے کارکنان کو ہدایت دی تھی کہ وہ توپ کی حفاظت کریں۔ تبھی سے نوجوان کاشتکاروں کی ایک ٹیم توپ کی حفاظت پر مامور تھی۔ راکیش ٹکیت کے مطابق توپ پر پہلا حق پورقاضی کے عوام کا ہے کیونکہ یہیں کے بزرگ انگریزوں کے خلاف لڑے، قربانیاں دیں اور انہیں یہاں سے بھاگنے پر مجبور کر ديا۔ انتظامیہ اس توپ کو یادگار کے طور پر کسی دوسرے مقام پر نصب کرے یہ ہمیں قابل قبول نہیں ہے، ہم انتظامیہ سے بات کر کے اسے پورقاضی میں ہی نصب کرانے کی کوشش کریں گے۔

مظفر نگر: لاٹھیوں سے ’توپ‘ کی حفاظت! پولیس پھر بھی چھین لے گئی، کسان برہم

توپ کی حفاظت عام لوگ ہی نہیں پولیس اہلکار بھی کر رہے تھے۔ سی او صدر کلدیپ سنگھ کے مطابق جب تک ’اے ایس آئی‘ کی ٹیم آکر جانچ کرکے کوئی فیصلہ نہیں لے لیتی تب تک پولیس توپ کی حفاظت کر رہی تھی۔ توپ کو جانچ کے لئے بھیجا جا چکا ہے لہذا اب پولیس کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔

توپ کی حفاظت کرنے والے بی کے ڈی کے کامل علی کے مطابق وہ توپ کو لے جانے نہیں دینا چاہتے تھے کیونکہ اس کا تعلق پورقاضی کی باوقار تاریخ سے ہے۔ وہ یہاں تین دن سے تعینات تھے۔

بھوور خان کے مطابق ’’پہلے جو توپ برآمد ہوئی تھی اسے مظفر کے ڈی ایم اور ایس ایس پی کی رہائش گاہ پر رکھوا دیا گیا، اس لئے ہم نہیں چاہتے تھے کہ وہ اس توپ کو لے جائیں۔‘‘

فی الحال توپ پولیس کی نگرانی میں ہے۔ بی کے ڈی کے سربراہ نریش ٹکیت نے ’سولی والے باغ‘ پہنچ کر شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا اور اب توپ کو واپس لانے کی حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ وہیں چیئرمین پورقاضی ظہیر فاروقی کے مطابق، ’’پولیس کا رات کے اندھیرے میں توپ کو لے جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ انتظامہ کو عوامی احساسات کی کوئی پروا نہیں ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔