مغربی یوپی میں گئو رکشکوں کی دہشت، مسلمان اپنی گائیں بیچنے پر مجبور

گئو رکشکوں کی طرف سے تشدد کے واقعات میں اضافہ ہونے سے مسلمانوں میں خوف کا عالم ہے، دودھ کے لئے گائے کی پرورش کرنے والے زیادہ تر مسلمانوں نے کسی بھی خطرے سے بچنے کے لئے گایوں کو بیچنا شروع کر دیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

مغربی اتر پردیش میں گئو رکشکوں کی طرف سے تشدد کے واقعات میں اضافہ ہونے سے مسلمانوں میں خوف کا عالم ہے۔ دودھ کے لئے گائے کی پرورش کرنے والے زیادہ تر مسلمانوں نے کسی بھی خطرے سے بچنے کے لئے گایوں کو بیچنا شروع کر دیا ہے۔ ہندوستان ٹائمز میں شائع خبر کے مطابق میرٹھ اور بلند شہر کے مسلمان تیزی سے اپنی گائے بیچ کر ان سے چھٹکارہ حاصل کر رہے ہیں۔ دراصل صوبہ میں جب سے یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے گائے کی پرورش کرنے والے مسلمانوں کی مشکلات میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔

بلند شہر کے سیانہ قصبہ کے قدآور مسلم رہنما اور سابق چیئرمین بدر الاسلام نے ہندوستان ٹائمز سے کہا کہ یو پی میں جیسے ہی یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت آئی اس کے بعد خود انہوں نے اپنی دو گائیں فروخت کر دیں۔

بدر الاسلام نے کہا، ’’ہوا پوری طرح بدلی ہوئی ہے، میں کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا اس لئے دونوں گائیں فروخت کر دیں، ویسے گایوں سے مجھے بے پناہ محبت ہے، کئی گایوں کی پرورش کرچکا ہوں۔ بچوں اور بڑوں کے لئے گائے کے دودھ کی افادیت کے پیش نظر میں نے گائیں پالیں تھی لیکن دل پر پتھر رکھ کر انہیں بیچنا پڑا۔

ادھر میرٹھ سے تقریباً 60 کلومیٹر دور واقع مسلم اکثریتی گاؤں سودت میں بھی مسلمان گائے کی وجہ سے خوف زدہ ہیں۔ تقریباً 2000 کی مسلم آبادی والے اس گاؤں کے مکھیا کلوا نے کہا کہ ان کا خاندان ہمیشہ سے گائے اور بھینس پالنے کے لئے مشہور رہا ہے لیکن ریاست میں جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے انہوں نے گایوں کو ایک دودھیے کو بیچ دیں۔

گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ یہاں کے کئی مسلمانوں نے بی جے پی کی حمایت کی تھی لیکن اس مرتبہ وہ بی جے پی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ بی جے پی نے اچھے دن کا خواب دکھا کر ووٹ حاصل کیے لیکن اچھے دن کہیں نظر نہیں آ رہے۔ انہوں نے کہا، ’’میرے پاس ایک بیل تھا، اس کی موت ہوگئی تو میں نے اس کی لاش دینے کے بجائے دفن کر دی۔ مجھے خدشہ تھا کہ بیل کی لاش کو باہر لے جانا خطرے سے خالی نہیں۔

کلوا کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو سالوں سے گاؤں والوں نے 200 گائیں اور بیل بیچ دیئے ہیں۔ گاؤں والوں کو ڈر ہے کہ انہیں کہیں جھوٹے کیس میں نہ پھنسا دیا جائے۔ جن لوگوں کے پاس گائیں ہیں وہ بھی انہیں چرنے کے لئے باہر نہیں چھوڑ رہے ہیں کہ کہیں گئو رکشکوں کی نظر ان پر نہ پڑ جائے۔

ایک اور گاؤں کے رہائشی شمشاد نے کہا کہ ان کی گائے بیمار ہے۔ لیکن وہ اسے لے کر ڈاکٹر کے پاس نہیں جا سکتے۔ کسی بھی طرح کے خطرے سے بچنے کے لئے وہ جانوروں کے ڈاکٹر کو اپنے گھر میں ہی بلانا پسند کریں گے۔ ان کے ایک ساتھی سلیم نے کہا کہ آخر گایوں کی وجہ سے مصیبت کیوں مول لی جائے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ گائے ان کی ماتا ہے، وہ ان کے ساتھ خوش رہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 27 Dec 2018, 5:10 PM