پلوامہ حملہ :نفرت بھرے ماحول میں محبت کا پیغام ہے شیو مندر کی از سر نو تعمیر

دہشت گردانہ حملے کے بعد پلوامہ میں ماحول کشیدہ ہے لیکن مسلمانوں نے یہاں ایک قدیم مندر کی مرمت کا کام شروع کیا ہے جس سے مقامی پنڈت فیملی میں خوشی کی لہر ہے۔ سبھی یکجہتی کے ساتھ مرمتی کام میں مصروف ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

’’ہماری دلی خواہش ہے کہ پھر وہی وقت آئے جو آج سے 30 سال پہلے تھا۔ ایک طرف یہاں مندر میں گھنٹی بجے اور دوسری طرف وہاں مسجد میں اذان کی آواز گونجے۔‘‘ یہ بیان جموں و کشمیر واقع پلوامہ کے باشندہ یونس خان کا ہے جو 4 مارچ یعنی شیوراتری کے موقع پر ایک ایسے مندر کی مرمت سے بہت خوش تھے جس کی حالت انتہائی مخدوش ہے اور تقریباً 30 سالوں سے یہاں پوجا نہیں ہوتی۔

دراصل پلوامہ کے اَچن علاقے میں ایک 80 سالہ قدیم شیو مندر ہے جس کی مرمت کا ذمہ کشمیری مسلمانوں اور پنڈتوں نے مل کر اٹھایا ہے۔ اس مرمتی کام کا آغاز مسلمانوں نے شیوراتری کے موقع پر مندر میں موجود سبھی لوگوں کو چائے پلا کر کیا۔ اسی مندر سے قریب ایک جامع مسجد ہے جہاں پابندی کے ساتھ نماز ادا کی جاتی ہے۔ پلوامہ میں دہشت گردانہ حملے کے بعد پیدا ہوئے کشیدہ ماحول میں اس پیش رفت کو انتہائی اہم اور خیر سگالی کے لیے اٹھایا گیا بہترین قدم قرار دیا جا رہا ہے۔

اس پیش رفت کے تعلق سے گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ مندر کی مرمت کا کام اس وقت شروع کرنے کا فیصلہ لیا گیا جب یہاں مقیم ایک پنڈت فیملی نے مسجد اوقاف کمیٹی سے اس سلسلے میں درخواست کی۔ خستہ حال مندر کی حالت سدھارنے کی اس گزارش کو کمیٹی نے منظور کیا اور مذہبی ہم آہنگی کی فضا قائم کرنے کے لیے قدم آگے بڑھایا۔ بعد ازاں پنڈت فیملی کے ایک رکن سنجے کمار نے کہا کہ ’’ہم یہاں آپسی بھائی چارے کے ساتھ اچھی طرح رہتے ہیں۔ یہاں جو اوقاف کمیٹی ہے، انھوں نے مدد کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا جس کے بعد مندر کی مرمت کا ہمارا خواب پورا ہو رہا ہے۔‘‘

ذرائع کے مطابق اس گاؤں میں کئی پنڈت خاندان رہتے تھے لیکن 1990 میں ناسازگار حالات کے درمیان سبھی پنڈت فیملی یہاں سے دوسری جگہ منتقل ہو گئے اور صرف ایک پنڈت فیملی یہاں رہ گئی۔ اسی فیملی نے مندر کی مرمت کے لیے اوقاف کمیٹی سے گزارش کی تھی۔ سنجے کمار نے ایک ہندی نیوز پورٹل سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ہم نے اپنا کام آپس میں بانٹ لیا ہے۔ ہمیں زمین کو ہموار کرنا ہے، مین گیٹ کو رنگنا ہے اور پھر دیوتا کی مورتی کو بھی نصب کرنا ہے۔ مندر کے گنبد کو بھی نئے سرے سے تعمیر کرنا ہے، اور ان سب کام کو مکمل ہونے میں کچھ ہفتوں کا وقت لگے گا۔‘‘

سنجے کمار کے بڑے بھائی بھوشن لال نے بھی مندر کی مرمت پر خوشی کا اظہار کیا اور مسلم بھائیوں کے ساتھ بھائی چارگی کا اعتراف بھی کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’ایک بار جب مرمت کا کام مکمل ہو جائے گا تو پڑوسی گاؤں کے ہندوؤں کو خاص پوجا کے لیے مدعو کیا جائے گا۔‘‘ اوقاف کمیٹی کے چیئرمین سید نظیر میر اس تعلق سے بتاتے ہیں کہ ’’مندر کی مرمت کے لیے چار لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس قدم سے گاؤں میں دو مذاہب کے لوگوں میں موجود صدیوں پرانی ہم آہنگی کو فروغ حاصل ہوگا۔‘‘

یہ بات سچ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جو کشیدگی اس وقت دیکھنے کو مل رہی ہے اور جس طرح سے کچھ سماج دشمن عناصر کے ذریعہ فضا میں فرقہ پرستی کا زہر گھولنے کی کوشش ہو رہی ہے، ایسے ماحول میں 80 سالہ قدیم مندر کی مرمت کی ذمہ داری مسلمانوں اور پنڈتوں کے ذریعہ سنبھالنا ایک خوشگوار ہوا کا جھونکا تصور کیا جا رہا ہے۔ امید یہ بھی کی جا رہی ہے کہ یہ خوشگوار ہوا کا جھونکا فضا میں پھیلے زہر کو بہا کر کہیں دور لے جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔