مسلمانوں، او بی سی اور دلتوں نے تو کمال کر دیا...سہیل انجم

نتائج آنے کے بعد جہاں بہت سے موضوعات زیر بحث ہیں وہیں میڈیا اور سیاسی حلقوں میں اس پر بھی گفتگو ہو رہی ہے کہ ان انتخابات میں مسلم اور دلت ووٹرز نے کیا کردار ادا کیا

<div class="paragraphs"><p>انڈیا بلاک کی میٹنگ ختم ہونے کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے ملکارجن کھڑگے، تصویر ویپن</p></div>

انڈیا بلاک کی میٹنگ ختم ہونے کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے ملکارجن کھڑگے، تصویر ویپن

user

سہیل انجم

پارلیمانی انتخابات کے نتائج کے تناظر میں اگر یہ کہا جائے کہ مسلمانوں، او بی سی اور دلتوں نے پارلیمنٹ کی صورت بدل دی تو غلط نہیں ہوگا۔ انھوں نے ایسا کمال کیا ہے جس کی کسی نے توقع نہیں کی تھی۔ نتائج آنے کے بعد جہاں بہت سے موضوعات زیر بحث ہیں وہیں میڈیا اور سیاسی حلقوں میں اس پر بھی گفتگو ہو رہی ہے کہ ان انتخابات میں مسلم اور دلت ووٹرز نے کیا کردار ادا کیا اور نئی لوک سبھا میں ان کی نمائندگی کی صورت حال کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں، او بی سی اور دلتوں نے انتخابی مقابلوں میں بی جے پی کے مخالف پلڑے میں اپنا وزن ڈالا جس کی وجہ سے ملک کا انتخابی و سیاسی نقشہ تبدیل ہو کر رہ گیا۔

انتخابی نتائج سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس بار مسلمانوں کا ووٹ منتشر نہیں ہوا۔ انھوں نے اجتماعی طور پر حزب اختلاف کے اتحاد ’انڈیا‘ کو ووٹ دیا۔ اسی طرح دلتوں اور او بی سی نے بھی اپوزیشن اتحاد کو ووٹ دیا جس کی وجہ سے بی جے پی کو بہت سی سیٹیں گنوانا پڑیں۔ حالانکہ اہم سیاسی جماعتوں نے گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں اس بار کم مسلم امیدوار کھڑے کیے تھے۔ 2019 میں 543 نشستوں کے لیے مجموعی طور پر 115 مسلم امیدوار کھڑے کیے گئے تھے جب کہ 2024 میں ان کی تعداد 78 تھی۔ گزشتہ لوک سبھا میں مسلم ارکان کی تعداد 26 تھی اس بار دو کم ہو کر 24 رہ گئی ہے۔ 2014 میں یہ تعداد 23 تھی۔

اس بار کانگریس کے سات، ٹی ایم سی کے پانچ، سماجوادی پارٹی کے چار، انڈین یونین مسلم لیگ کے تین، نیشنل کانفرنس کے دو، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ایک اور دو آزاد مسلم امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ کامیاب امیدواروں میں سہارنپور سے کانگریس کے عمران مسعود، دھوبری آسام سے رقیب الحسین جنھوں نے مولانا بدر الدین اجمل کو ساڑھے دس لاکھ ووٹوں سے ہرایا، کیرانہ سے سماجوادی پارٹی کی اقرا چودھری، غازی پور سے افضال انصاری، رامپور سے مولانا محب اللہ ندوی، حیدرآباد سے اے آئی ایم آئی ایم کے اسد الدین اویسی، لداخ سے آزاد امیدوار محمد حنیفہ، جموں وکشمیر کے بارہمولہ سے آزاد امیدوار انجینئر رشید، بہرامپور مغربی بنگال سے ٹی ایم سی کے یوسف پٹھان اور پونانی کیرالہ سے انڈین یونین مسلم لیگ کے عبد الصد صمدانی قابل ذکر ہیں۔

دراصل سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے ’پی ڈی اے‘ نام سے ایک فارمولہ بنایا تھا یعنی پچھڑا، دلت اور الپ سنکھیک یعنی اقلیت۔ اور اس کے 86 فی صد کامیاب امیدوار او بی سی، دلت اور اقلیتی برادری سے ہیں۔ پی ڈی اے فارمولے کو کامیاب بنانے میں اکھلیش کے ساتھ راہل گاندھی نے بھی زبردست محنت کی تھی جس کا پھل سامنے ہے۔ سماج وادی پارٹی کے کامیاب 37 امیدواروں میں 20 او بی سی، آٹھ دلت اور چار مسلمان ہیں۔ یہاں تک کہ اترپردیش کے ایودھیا سے سماجوادی پارٹی کے دلت امیدوار اودھیش پرساد نے بی جے پی کے اونچی ذات کے امیدوار للو سنگھ کو ہرایا ہے۔اس شکست کے بعد بی جے پی اور مودی کے بھکت ایودھیا کے ہندوؤں کو پانی پی پی کر گالی دے رہے ہیں۔ اگر مجموعی طور پر کانگریس اور سماجوادی پارٹی کے کامیاب امیدواروں کو دیکھیں تو 33 فیصد او بی سی، 19 فیصد دلت اور چھ فیصد مسلمان ہیں۔


تجزیہ کاروں کے مطابق اس بار بی جے پی کو بہت کم دلت ووٹ ملا۔ 2019 کے الیکشن میں بی ایس پی کا اکثریتی ووٹ خاموشی کے ساتھ بی جے پی کو ملا تھا لیکن اس بار اس کے زیادہ ووٹرز نے ’انڈیا‘ اتحاد کو ووٹ دیا۔ سابق رکن پارلیمان محمد ادیب کہتے ہیں کہ 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد سے مسلمان منفی ووٹنگ کرتے رہے ہیں۔ یعنی بی جے پی کو ہرانے کے لیے کبھی اس پارٹی کو تو کبھی اس پارٹی کو ووٹ دیتے رہے ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا جب انھوں نے مثبت ووٹنگ کی۔ اترپردیش میں 32 لوک سبھا حلقے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی 20 سے 52 فی صد تک ہے۔ ان میں 28 پر بی جے پی کامیاب ہوتی رہی ہے۔ س بار دو سیٹوں کو چھوڑ کر باقی سب پر ہار گئی۔

یاد رہے کہ اس الیکشن میں مسلمانوں کو بہت کم اہمیت دی گئی تھی۔ یہاں تک کہ کسی بھی پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں مسلمانوں کے لیے کسی اسکیم کا اعلان تک نہیں کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی نے مسلمانوں کے خلاف ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ ان کی آواز اٹھانے والے کو ملک کا غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔ 2014 کے بعد مسلمانوں کے تعلق سے سیاسی جماعتوں کا نظریہ بدل گیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی بیشتر انتخابی تقریروں میں کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں پر مسلمانوں کو خوش کرنے کی پالیسی اختیار کرنے کا ازام لگایا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ کانگریس دلتوں اوراد بی سی کا ریزرویشن چھین کر مسلمانوں کو دے دے گی۔ 2014 کے بعد بی جے پی نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ کانگریس مسلمانوں کی پارٹی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعظم مودی نے مسلمانوں کی سیاسی حیثیت ختم کر دی تھی۔ پہلے جہاں ہر پارٹی یہ سوچتی تھی کہ مسلمان اس سے ناراض نہ ہو جائے وہیں 2014 کے بعد مسلمانوں کا نام لینا بھی سیاسی جرم بن گیا۔

مسلمانوں، او بی سی اور دلتوں کی جانب سے اپوزیشن اتحاد کو ووٹ دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بی جے پی کے بعض ارکان پارلیمان نے آئین کو بدلنے کی بات کہی تھی جس کا مسلمانوں میں تو منفی اثر ہوا ہی دلتوں اور دیگر پس ماندہ برادریوں میں بھی ہوا۔ یہاں تک کہ ایودھیا کے بی جے پی امیدوار للو سنگھ نے بھی کہا تھا کہ بی جے پی کو اگر چار سو سیٹیں مل جائیں توآئین بدل دیا جائے گا۔ ان اعلانات نے دلتوں پر بھی منفی اثر ڈالا۔ انھوں نے اس کا مطلب یہ نکالا اور درست نکالا کہ بی جے پی دلت رہنما بابا صاحب امبیڈکر کا آئین بدل کر دلتوں کے آئینی حقوق کو سلب کرنا چاہتی ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بزنس مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں پروفیسر اور مسلمانوں کے تعلیمی، سماجی اور سیاسی حالات پر گہری نظر رکھنے والے سینئر تجزیہ کار پروفیسر فرقان قمر کہتے ہیں کہ نتائج نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس بار لوک سبھا کی جو بناوٹ ہوگی اس کا جھکاؤ اونچی ذات کے ہندووں کے بجائے دلت، شیڈولڈ کاسٹ اور او بی سی کی جانب ہوگا۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 2019 کے انتخابات میں کامیاب مسلمانوں کی شرح ساڑھے پانچ فی صد تھی۔ اس بار یہ کم ہو کر ساڑھے چار رہ گئی ہے۔ جب کہ مسلمانوں کی آبادی تقریباً 15 فی صد ہے۔ لیکن اگر انڈیا اتحاد کے کامیاب مسلم امیدواروں کا فی صد دیکھیں تو وہ سات ہے۔ نتائج نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ مسلمان جیتنے کے امکانات نہیں رکھتے۔ اگر مسلمانوں کو موقع ملے تو وہ جیت کر دکھا سکتے ہیں۔


پروفیسر فرقان قمر ایک اہم بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ایسے حلقوں کو جہاں مسلمانوں کی قابل لحاظ آبادی ہے اور وہ نتائج پر اثر انداز ہو سکتے ہیں حکومت نے دلتوں اور او بی سی کے لیے مخصوص کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے فطری طور پر وہاں سے مسلمان کامیاب نہیں ہوتے۔ اس بات کی نشان دہی مسلمانوں کی تعلیمی، سماجی اور اقتصادی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے ڈاکٹر من موہن سنگھ کی جانب سے تشکیل دی جانے والی سچر کمیٹی کی رپورٹ میں بھی کی گئی ہے۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کی قابل لحاظ آبادی والے حلقوں کو دوسروں کے لیے مخصوص نہ کرے۔ اس بار مسلمانوں نے جذباتیت کے بجائے عقلمندی سے ووٹنگ کی جس کی وجہ سے ان کا ووٹ بکھرنے سے بچ گیا۔

محمد ادیب کے خیال میں اس بار مسلمانوں نے جذباتیت سے کام نہیں لیا۔ انھوں نے مسلک اور برادری پر آئین کے تحفظ کو ترجیح دی۔ کیونکہ اگر آئین بچے گا تبھی مسلمان بچے گا۔ یہ رجحان بہت خوش آئند ہے۔ اس الیکشن میں ایک بار پھر مسلمانوں نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ سیاسی طور پر غیر اہم نہیں ہوئے ہیں۔ اب یہ مسلم قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام سیاسی پارٹیوں کو یہ بتائے کہ مسلمان سیاسی طور پر غیر اہم نہیں ہوئے ہیں۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ بی جے پی کے واحد مسلم امیدوار عبد السلام ملا پورم کیرالہ سے ہار گئے ہیں۔ وہ تیسرے نمبر پر آئے ہیں۔ وہاں انڈین یونین مسلم لیگ کے ای ٹی محمد بشیر کامیاب ہوئے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔