عید کی تیاریوں میں مگن ہیں مسلمان، لیکن بے روزگاری و مہنگائی کی وجہ سے ہاتھ کھینچے ہوئے ہیں

پرانی دہلی کے اعجاز نور کا ماننا ہے کہ لوگوں میں اس سال کوئی خوف نہیں ہے اور سبھی پرجوش ہو کر خریداری کر رہے ہیں، لیکن مہنگائی کا اثر صاف نظر آتا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر قومی آواز</p></div>

تصویر قومی آواز

user

سید خرم رضا

بچوں کو اپنے دوستوں کے مقابلے بہترین کپڑے اور جوتے چاہئے، والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ چاہے ادھار کریں یا قرض لیکن عید کے موقع پر گھر میں وہ سب کچھ ہو جس سے گھر میں چاروں طرف خوشیاں ہی خوشیاں نظر آئیں۔ بیماری کے خوف میں دو سال تک عید کا تہوار مسلمانوں نے اپنے اوپر بڑا جبر کر کے منایا، لیکن اس سال بیماری کا تو کوئی خوف نہیں ہے لیکن مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے لوگوں نے اپنے ہاتھ ضرور کھینچے ہوئے ہیں۔

مہینے بھر کے روزے رکھنے کے بعد عید الفطر کا مسلمانوں کو بے تابی سے انتظار ہے۔ مسلم اکثریتی علاقوں کے بازاروں میں زبردست رونق نظر آ رہی ہے لیکن پرانی دہلی کے محمد یوسف کا کہنا ہے کہ ’’بازاروں میں رونق تو بہت ہے، ہجوم بہت زیادہ ہے، لیکن یہ ہجوم اور رونق سڑکوں پر تو ہے دکانوں کے اندر نہیں۔ اس کی وجہ مہنگائی اور بے روزگاری ہے۔‘‘


جعفرآباد  کے ایک دکاندار محمد شاکر کا کہنا ہے کہ ایسا بالکل نہیں ہے کہ لوگ خریداری نہیں کر رہے۔ بقول ان کے لوگ نہ صرف بازاروں میں نظر آ رہے ہیں بلکہ وہ خریداری بھی کر رہے ہیں، دراصل گزشتہ دو سالوں سے لوگوں نے تہوار پر زیادہ خرچ نہیں کیا اور بیماری کے خوف کی وجہ سے انہوں نے گھروں اور محلوں میں ہی تہوار منایا۔ اس بار ایسا نہیں ہے، لوگ بے خوف ہو کر باہر نکل رہے ہیں اور خریداری کر رہے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’دراصل مسلمانوں کا کوئی بجٹ تو ہوتا نہیں، وہ تو بس جو بھی ہوتا ہے اس تہوار پر خرچ کرنا چاہتے ہیں اس لئے مجھے لگتا ہے کہ لوگ خوب خریداری کر رہے ہیں۔‘‘ محمد شاکر کا کہنا تھا کہ جعفرآباد میں رات کو تل رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی اور وہاں جوتوں کا کاروبار بہت اچھا چل رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سال یہ تو ہے کہ جو بھی خریداری ہو رہی ہے وہ مقامی لوگ ہی کر رہے ہیں کیونکہ کاریگر ابھی نہیں ہیں اور ان کی واپسی عید کے بعد ہ گی کیونکہ جب ہی سیزن شروع ہوگا۔

واضح رہے کہ مشرقی دہلی کے علاقے جعفرآباد، ویلکم، سیلم پور اور مصطفی آباد وغیرہ میں باہر کے کاریگروں کی بڑی تعداد کام کرتی ہے اور رہتی ہے جس کی وجہ سے کسی بھی تہوار پر ان کی موجودگی صاف نظر آ تی ہے۔ عید کیونکہ چاند کے کیلنڈر کے حساب سے منائی جاتی ہے اور ہر سال ہر مسلم تہوار دس دن پیچھے ہو جاتا ہے اس لئے جو کاریگر پہلے بقرعید اور محرم پر گھر جایا کرتے تھے وہ اب عید کے موقع پر چلے جاتے ہیں کیونکہ بقرعید اور محرم کے وقت ان کا سیزن ہوگا۔


اوکھلا کے محمد سلیم، جو کرتوں کی ایک دوکان پر بیٹھتے ہیں، وہ اس سال لوگوں کی قوت خرید سے خوش ہیں۔ سلیم کہتے ہیں ’’ذاکر نگر میں جتنا ہجوم اس مرتبہ دیکھا ہے اتنا پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اور لوگ خوب خرید رہے ہیں، جبکہ خود اوکھلا کی ایک بڑی آبادی لاجپت نگر سے خریداری میں یقین رکھتی ہے۔‘‘ ان کے بقول لوگ خوب خریداری کر رہے ہیں اور دل کھول کر کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ہمیں شروع میں لگا تھا کہ مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید متاثر رہے گی اور اس سال کرتوں کی بکری کم ہوگی، لیکن خلاف توقع اس سال نہ صرف کرتوں کی بکری زیادہ ہوئی بلکہ اچھے مہنگے کرتوں کی بکری کی تعداد بھی بہت زیادہ ہوئی۔‘‘

پرانی دہلی کے اعجاز نور کا ماننا ہے کہ لوگوں میں اس سال کوئی خوف نہیں ہے اور سبھی پرجوش ہو کر خریداری کر رہے ہیں، لیکن مہنگائی کا اثر صاف نظر آتا ہے اور اس  کا اندازہ دو باتوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ بے روزگاری کی وجہ سے نوجوان نسل بڑی تعداد میں دوکان لگا رہی ہے، اور دوسرا یہ کہ بڑے شو روم کی جگہ چھوٹی دوکانوں پر بھیڑ نظر آ رہی ہے۔ ان باتوں  سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور لوگوں کی جیبوں پر مہنگائی کا اثر صاف نظر آ رہا ہے۔


پرانی دہلی ہو، جعفرآباد ہو یا اوکھلا... کہیں بھی مسلمان عید کے اس تہوار پر خوفزدہ نظر نہیں آ رہے اور وہ سیاسی طور پر زیادہ سمجھدار نظر آ رہا ہے۔ عید الفطر کے تہوار کی تیاریوں سے صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ سیاسی طور پر خوفزدہ نہیں ہیں اور میڈیا میں ستیہ پال ملک کے انٹرویو نہ دکھائے جانے کی وجہ سے ان کو ستیہ پال ملک کے بارے میں معلوم نہیں ہے، لیکن وہ اپنے تہوار میں اتنا بھی مست نہیں کہ وہ کرناٹک اور دیگر سیاسی معاملوں پر اپنی ٹھوس رائے نہ رکھتے ہوں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔