مدارس کے طلبہ ہر میدان میں فتح حاصل کر سکتے ہیں : ڈاکٹر افشار عالم

انہوں نے کہا کہ مدارس میں نصاب تعلیم میں اصلاح کی ضرورت ہے اور مدارس کے طلبہ کو مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

مدارس کے طلبہ کی صلاحیت کا اعتراف اور انھیں مواقع فراہم کرنے کی وکالت کرتے ہوئے جامعہ ہمدرد کے وائس چانسلر ڈاکٹر افشار عالم نے کہا کہ مدارس کے طلبہ کو مواقع اور مدارس کے نظام میں بہتری لائی جائے گی تو مدارس کے طلبہ ہر میدان فتح حاصل کر سکتے ہیں اور اپنی چھاپ چھوڑ سکتے ہیں۔ یہ بات انہوں نے شاہین گروپ اورجامعہ ہمدرد کےزیر اہتمام مشترکہ طور پر منعقدہ ’ہندوستان میں مدارس کا تعلیمی نظام: مسائل و مواقع‘ کے عنوان سے سیمینار کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے بعض مقررین کی باتوں کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ مدارس میں نصاب تعلیم میں اصلاح کی ضرورت ہے۔بعض مسائل بھی ہیں لیکن مدارس کے طلبہ کو مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔


مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اسلم پرویز نے کہا کہ علم سے مراد جو آج کل لیا جاتا ہے ‘صرف وہی نہیں ہے بلکہ عربی میں علم کا معنی ’سائنس‘ ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں قرآنی آیات اور عربی لغات سے استدلال کیا۔انہوں نے کہا کہ علم کا مطلب ہے کہ کسی چیز کو پورے طور پر سمجھا جائے۔ عصری تقاضوں سے بے اعتنائی ہو اور ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہوں؛ دونوں ایک ساتھ ممکن نہیں۔ ہمیں بنیادی اصلاحات کی جانب توجہ دیتے ہوئے مقصد کے حصول پر بھی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ دینی علوم اور دنیاوی علوم کی تقسیم پر از سر نو غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔

مولانا آزازد نیشنل اردو یونیورسٹی،کے سابق پرو وائس چانسلر خواجہ ایم شاہد نے اس موقع پر کہا کہ مجھے فوج سے بریگیڈیئر کا فون آیا کہ وہ امام کے لیے تعلیمی معیار کا تعین کرنا چاہتے ہیں لہذا مجھ سے تعاون چاہتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ اس بابت آپ مختلف ریاستوں میں مدرسہ بورڈ ہیں، ان سے رابطہ کریں۔ کچھ دن بعد پھر فون آیا تو بریگیڈیئر نے کہا کہ اب مزید تذبذب کا شکار ہو گیا ہوں اور ا س طرح فوج میں امام کے لیے پالیسی سازی نہ ہو سکی۔ انہوں نے کہا کہ تمام مدارس اور بورڈ کو چاہیے کہ وہ مشترکہ طور پر ایک قومی مدرسہ بورڈ تشکیل دیں۔


مسٹر خواجہ نے کہا کہ مدارس میں اساتذہ کی تقرری کا عمل قابل اصلاح ہے۔ ایک معیار متعین ہونا از حد ضروری ہے اور ساتھ ہی ساتھ اساتذہ کی تربیت (ٹریننگ) بھی لازم ہے۔انہوں نے اہالیان مدارس کو اس جانب بطور خاص توجہ دلائی کہ امریکی وزارت دفاع کے دعوے کے بعد کہ دہشت گردوں کا تعلق مذہبی تنظیم سے ہوتا ہے؛ ہمارے یہاں وزارت داخلہ نے اس مسئلے پر کمیٹیاں تشکیل دیں جن کے رپورٹس بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بات سے قطع نظر کہ ان میں کتنی سچائی ہے، مدارس کے ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ بین المذاہب ربط و ضبط پر توجہ دیں۔ اورمدرسے کے پروگرام اور تقریبات میں دوسرے مذاہب کے عوام و خواص کو ضرور مدعو کریں۔

جماعت اسلامی ہند کے صدر سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ کسی عہد میں علم کلام، منطق، فلسفہ، علم جفر، علم ہیئت و دیگر علوم بھی جدید اور عصری علوم ہوا کرتے تھے۔ ہر دور میں دینی تقاضے تبدیل ہوتے رہے ہیں لہٰذا انہی تقاضوں کی بنیاد پر کتابیں لکھی گئیں اور شاندار اسکالر پیدا ہوئے مگر آج کے مدارس عصری تقاضوں سے بے اعتناء ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دینی اور دنیاوی تعلیم کی تقسیم بہت بڑی نا انصافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی، سائنس اور میڈیکل سائنس میں ہونے والے نت نئے ایجادات اپنے ساتھ بہتیرے تقاضے بھی لائے ہیں۔آج کرپٹیو کرنسی کا مسئلہ ہے۔ گذشتہ روز کرناٹک ہائی کورٹ کا حجاب کی بابت فیصلہ آیا ہے۔ ہمیں ایک ایسے فقیہ کی ضرورت ہے جو فقہ کے ساتھ معاشیات میں دستگاہ رکھتا ہو۔ فی زماننا ایسے عالم کی ضرورت ہے جو قانون کا بہترین عالم بھی ہو۔


شاہین گروپ کے چیئرمین ڈاکٹر عبد القدیر نے کہا کہ شاہین گروپ میں ہزاروں کی تعداد میں مختلف شہروں میں مسلم طلبہ و طالبات زیور تعلیم سے آراستہ ہورہے ہیں۔ مدارس کے طلبہ خصوصاً حفاظ کے لیے ہمارے یہاں خصوصی مراعات دی گئی ہیں کیونکہ مدارس کے طلبہ غیر معمولی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔ مختصر سے وقت میں یہ وہ کر دکھاتے ہیں جو حیرت انگیز ہے، ناممکن تو نہیں تاہم مشکل ضرور ہے۔ چونکہ محنت و لگن اور یکسوئی سے پڑھنے کا وہ جذبہ جو ان میں ہے وہ دنیا کے کسی طالب علم میں نہیں۔ اس دوران انہوں نے ’ہندوستان میں مدارس کا تعلیمی نظام: مسائل و مواقع‘ پر کچھ اہم تجاویز بھی پیش کیں۔

جمعیۃ العلماء دہلی کے صدر مولانا مسلم قاسمی نے کہا کہ ہم مدارس کو فروغ دینے کے قطعی مخالف نہیں تاہم ہماری گذارش ہے کہ یہ مدارس کے نصاب کو متاثر کیے بغیر ہونا چاہیے کیونکہ مدارس کا قیام بنیادی طور پر شرعی ضروریات کی تکمیل ہے،کہیں یہی عنقا‘ نہ ہو جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ محض مدارس میں ہی عصری علوم کو داخل نصاب کرنے کی وکالت کیوں کی جاتی ہے؟ یونیورسٹی، کالج اور اسکولوں میں دینی کتب کیوں داخل نصاب نہیں کی جاتیں؟۔


دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین کمال فاروقی نے کہا کہ اگر کوئی کمیٹی مدارس کو سینٹررلائزیشن کرنے کے لیے تشکیل دی جاتی ہے تو وقف بورڈ اور اقلیتی کمیشن اس میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ ذمہ داریوں کی ادائیگی پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ مدارس اسلامیہ ہماری مشترکہ تاریخی، تہذیبی اور سماجی ورثہ ہیں لہٰذا ہمیں پہلےسے زیادہ ان کی ضرورت ہے اور اسی لیے پہلے سے زیادہ ان کے تحفظ و ترویج پر توجہ دینے کی ضرورت بھی ہے۔

اس موقع پر فتحپوری شاہی جامع مسجد ، دہلی کے امام مفتی ڈاکٹر مکرم نے اپنے تعلیمی سفر کو بیان کیا۔ انہوں نے اپنے جد اعلیٰ کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ علم فلکیات (ہیئت)کے ماہر تھے اور انہوں نے ہی دہلی اور مضافات کے لیے اوقاتِ نماز کا کیلینڈر ترتیب دیا تھا جو آج بھی مروج و مقبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدارس اسلامیہ، مسلم معاشرے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں جن کاوجود معاشرے کے قیام کی خاطر ناگذیر ہے۔


ان کے علاوہ مختلف شعبوں کی دیگر معزز شخصیات نے بھی افتتاحی تقریب میں اظہار خیالات کیا جبکہ جامعہ ہمدرد کےاستاذ، انجینیئر ڈاکٹر فضل اللہ چشتی نے افتتاحی تقریب کی نظامت کا فریضہ انجام دیا۔ اس موقع پر مختلف یونیورسٹی اور مدارس اسلامیہ کے طلبہ و اساتذہ بڑی تعداد میں موجود تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */