مظفر نگر میں ’راسوکا‘ کا غلط استعمال مسلمانوں کے لیے خوفناک

مظفر نگر میں گزشتہ سال جون میں ہوئے ہنگامہ کے بعد 9 لوگوں پر راسوکا لگا دیاگیا تھا۔ اس واقعہ کے ایک سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس محلے میں خوف اور دہشت کی حکمرانی ہے۔

تصویر آس محمد
تصویر آس محمد
user

آس محمد کیف

56 سالہ حاجی شیر مظفر نگر کے مشہور محلہ خالاپار کی معروف ہستی ہیں۔ شہر کے مصروف ترین ’شیو چوک‘ پر ان کی جوتے فروخت کرنے کی دکان ہے۔ محلے میں ان کا اچھا خاصہ دبدبہ ہے۔ گزشتہ سال 27 جون کو جانوروں کے غیر قانونی ذبیحہ کی شکایت پر یہاں ایک گلی قصاوان میں پولس نے دبش دی تو تنازعہ ہو گیا اور لوگ مشتعل ہو گئے۔ اس کے بعد مقامی پولس نے وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ان لوگوں کے درمیان حاجی شیر کو لوگوں کو سمجھانے بھیجا۔ یہاں پولس کی گاڑی میں توڑ پھوڑ بھی ہوئی اور ہنگامہ برپا ہو گیا۔

تصویر آس محمد
تصویر آس محمد

اس واقعہ کے بعد ہنگامہ کرنے والے لوگوں کے خلاف سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج ہو گیا۔ پولس نے حاجی شیر اور اس کے بیٹے عمران کے خلاف بھی مقدمہ درج کر لیا۔ باپ بیٹے پر ’راسوکا‘ (این ایس اے) بھی لگا دیا گیا۔ حاجی شیر نے اس سلسلے میں ’قومی آواز‘ کے نمائندہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے پولس کی مدد کرنے کا یہ صلہ ملا۔ بی جے پی کے کچھ لیڈر مجھ سے ناراض تھے اور علاقے میں لوگ میری بات مانتے تھے تو مجھے نیچا دکھانے اور لوگوں میں خوف پیدا کرنے کے لیے یہ کیا گیا۔‘‘ حاجی شیر بتاتے ہیں کہ ’’بعد میں ہم عدالت گئے جہاں راسوکا ختم کر دیا گیا۔ لیکن مجھے 6 مہینے سے زیادہ جیل میں رہنا پڑا۔ جیل سے باہر آنے کے بعد میں افسروں سے ملا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ میرے سوال پر وہ خاموش رہے اور کوئی جواب نہیں دے پائے۔‘‘

مظفر نگر میں گزشتہ سال جون میں ہوئے ہنگامہ کے بعد 9 لوگوں پر راسوکا لگا دیاگیا تھا جن میں حاجی شیر اور ان کے بیٹے کا نام بھی شامل تھا۔ اس واقعہ کے ایک سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس محلے میں خوف اور دہشت کی حکمرانی ہے۔ بہت سی دکانوں پر اب تک تالا لگا ہوا ہے اور کچھ گھروں کے لوگ یہاں سے ہجرت کر گئے ہیں۔ مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ بے گناہ لوگوں پر پولس نے بے حد سخت کارروائی کی ہے۔ 60 سالہ محمد اسلام، جو کہ بیمار تھے، انھیں جیل میں بند کر دیا گیا۔ جب ان کی حالت بگڑ گئی تو چھوڑ دیا گیا۔ اسی طرح ریہڑ چلا کر اپنی فیملی کی پرورش کرنے والے 58 سالہ مان پر بھی راسوکا کے تحت کارروائی کی گئی۔ مقامی سماجی کارکن دلشاد پہلوان بتاتے ہیں کہ ’’ایک ہی محلے کے 9 لوگوں پر راسوکا کا شاید یہ پورے ملک میں پہلا معاملہ ہوگا۔ حکومت غلط طریقے سے استحصال کرنے کا کام کر رہی ہے۔‘‘ اس پورے معاملے میں مان کا کہنا ہے کہ ’’مجھ پر جو کچھ گزرا اس کے بعد میں قرض دار ہو گیا ہوں۔ میرے بچے مزدوری کر رہے ہیں۔ میری غلطی صرف اتنی ہے کہ اس گلی میں میرا بھی گھر ہے۔‘‘ خاص بات یہ ہے کہ اس ہنگامہ کا اہم ملزم ’کالا‘ اب بھی فرار ہے۔ پولس کی گاڑی کے ساتھ توڑ پھوڑ کرنے کا الزام اسی پر عائد ہے۔

مقامی شخص آصف راہی ’قومی آواز‘ کو بتاتے ہیں کہ راسوکا کی کارروائی انتہائی سنگین ہوتی ہے لیکن مظفر نگر میں یہ عام بات ہو گئی ہے۔ خصوصاً ایک خاص طبقہ کے خلاف اس کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ مظفر نگر کے منصور پور تھانہ حلقہ واقع گاؤں پُربالیان میں گزشتہ عیدالاضحیٰ (22 اگست) سے ایک دن قبل کرکٹ کھیل رہے کچھ لڑکے آپس میں متصادم ہو گئے۔ چونکہ گاؤں کے کرکٹ میدان میں چوکے-چھکّے کا باؤنڈری لائن نہیں ہوتا اس لیے اندازہ کرنے میں اکثر غلط فہمی ہو جاتی ہے۔ اسی وجہ سے اس دن بھی ہنگامہ ہوا، کھیل ختم کر دیا گیا اور دونوں ٹیم کے کچھ لڑکے آپس میں مار پیٹ کرنے لگے۔ یہ ایک عام واقعہ تھا اور اکثر ایسا ہوتا ہی رہتا ہے۔ بعد میں سبھی کھلاڑی اپنے اپنے گھر پہنچ گئے۔ میچ کھیلنے والے زیادہ تر بچے نابالغ تھے اور جب ان کے گھر والوں کو اس جھگڑے کی خبر ملی تو انھوں نے اپنے بچوں کو ڈانٹتے ہوئے اس طرح کے جھگڑوں سے دور رہنے کے لیے کہا۔ لیکن ناسمجھ بچوں کے ایک گروپ نے دوسرے گروپ کے ایک کھلاڑی کے گھر کام کرنے والے نوکر کو پیٹ دیا۔ اس کے بعد پہلے فریق کے لڑکوں نے ملزم کے گھر پہنچ کر گالی گلوج کی۔

مظفر نگر میں جرائم کے معاملوں پر گہری نظر رکھنے والے وکیل عارف شیش محلی کے مطابق یہ جھگڑا بچوں کی ناسمجھی اور بے وقوفی پر مبنی ہے اور اس طرح کے معاملے روزانہ ہوتے رہتے ہیں۔ اس طرح کے 80 فیصد معاملات میں گھر والوں تک شکایت نہیں پہنچتی اور محض 1 فیصد معاملوں میں رپورٹ درج ہو پاتی ہے۔ لیکن اس معمولی واقعہ میں 26 لوگوں کو جیل جانا پڑا جن میں سے زیادہ تر ایک مہینے سے زیادہ وقت تک جیل میں رہنا پڑا۔ ان میں وہ بچے بھی شامل ہیں جو اس دن کرکٹ کھیل رہے تھے۔ 65 سالہ ضعیف شخص شمشیر علی کے ساتھ تین لوگوں پر راسوکا لگا دیا گیا اور حالات ایسے ہیں کہ گاؤں میں اب بھی پی اے سی تعینات ہے۔

تصویر آس محمد
تصویر آس محمد

قابل ذکر ہے کہ راسوکا یعنی نیشنل سیکورٹی ایکٹ کا استعمال انتہائی سنگین حالات میں کیا جاتا ہے اور اس تعلق سے عام آدمی یہی سمجھتا ہے کہ اس میں ’کوئی وکیل نہیں، کوئی دلیل نہیں اور کوئی اپیل نہیں‘ والی بات ہوتی ہے۔ عام آدمی اس قانون کے نام سے ہی خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ پُربالیان گاؤں کے اس معاملے میں، جس میں کسی کو کھرونچ تک نہیں آئی ہے، تین لوگ راسوکا میں ابھی بھی جیل میں بند ہیں، دو درجن ضمانت پر باہر ہیں۔ ان سبھی کا تعلق مسلم طبقہ سے ہے۔

’قومی آواز‘ کا نمائندہ جب شمشیر کے گھر پہنچتا ہے تو اسے دیکھ کر خواتین کی بھیڑ جمع ہو جاتی ہے۔ 75 سالہ خاتون حسینہ کہتی ہیں کہ ’’ایک جھگڑا جو ہوا ہی نہیں، اس میں مسلمانوں کا دماغ ٹھیک کر رہے ہیں۔‘‘ حسینہ پولس کی اس بات کو خارج کرتی ہیں کہ یہاں فرقہ وارانہ کشیدگی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’آپ جس ’ہندو‘ کے گھر کہیں گے میں چلی جاؤں گی۔ وہاں کے لوگ مجھے ماں کہیں گے اور کھانا کھلائیں گے۔ اگر یہ پولس اور لیڈر نہ ہوں تو ہم چین و سکون سے رہیں گے۔‘‘

حسینہ کے 35 سالہ بیٹے محبوب پر بھی راسوکا لگایا گیا۔ اس تعلق سے بتاتے ہوئے بوڑھی ماں کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ وہ کہتی ہے کہ ’’ہمیں مسلمانوں ہونے کا سبق سکھایا جا رہا ہے۔ سب کہہ رہے ہیں کہ حکومت کی یہی سوچ ہے۔ کیا واقعی حکومت کی یہی سوچ ہے؟‘‘ اتر پردیش حکومت نے یکم جنوری 2018 کو بتایا تھا کہ اس نے 160 لوگوں پر راسوکا لگایا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تعداد اب بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ رہائی منچ کے راجیو یادو کے مطابق یہ تعداد اب 200 کو پار کر رہی ہے۔ بدقسمتی سے اس میں زیادہ تعداد مسلمانوں اور دلتوں کی ہے۔

بھیم آرمی کے سربراہ چندر شیکھر پر جب راسوکا لگایا گیا تو یہ خبر سرخیاں بنی تھیں۔ عدالت سے ضمانت ملنے کے بعد ان پر راسوکا لگایا گیا تھا جس کی مدت کو لگاتار بڑھایا جا رہا تھا۔ کاس گنج میں بھی کنچن گپتا کے ملزم کو عدالت نے ضمانت دے دی تھی لیکن ان کی آزادی سے ٹھیک پہلے تینوں پر راسوکا لگا دیا گیا۔ راسوکا لگائے گئے شخص کو 12 مہینوں تک جیل میں بند رکھا جاتا ہے، حالانکہ اس کے لیے ہائی کورٹ میں ایک ایڈوائزری بورڈ سماعت کرتا ہے۔ عام زبان میں کہا جائے تو یہ بورڈ راسوکا ’توڑ‘ سکتا ہے لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔

تصویر آس محمد
تصویر آس محمد

سابق رکن پارلیمنٹ اور کانگریس لیڈر ہریندر ملک کہتے ہیں کہ ’’جو کچھ ہو رہا ہے وہ استحصال کی پالیسی کا حصہ ہے۔ قانون کے رکھوالے بی جے پی کے لیڈروں کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں۔ بی جے پی لیڈر برسرعام پولس کو پیٹ رہے ہیں لیکن ان پر راسوکا نہیں لگ رہا۔ ان کی حمایت میں پولس کی گاڑی توڑ دی جاتی ہے، زبردستی ملزم کو پولس سے چھیننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ افسران لیڈروں کے منشی بن گئے ہیں۔ دلتوں، مسلمانوں اور پسماندہ طبقات کے خلاف فرضی مقدمے لکھائے جا رہے ہیں۔ سرکاری مشینری کا جم کر غلط استعمال ہو رہا ہے۔ گنہگاروں پر راسوکا نہیں لگایا جا رہا جب کہ نسلی اور مذہبی بنیاد پر یکطرفہ کاررائی کی مذمت کی جانی چاہیے۔‘‘

اتر پردیش حکومت کے اے ڈی جی پی آند کمار نسلی اور مذہبی بنیاد پر راسوکا لگائے جانے سے صاف انکار کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’پولس غیر جانبدار ہو کر کام کرتی ہے، نسلی یا مذہبی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں لیتی۔ راسوکا دبنگ اور نظامِ قانون میں رخنہ پیدا کرنے والے جرائم پیشوں کے خلاف لگا ہے۔ اسے یک طرفہ کارروائی نہیں کہی جا سکتی۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */