مراد آباد: گھروں میں باجماعت نماز کے خلاف داخل ایف آئی آر پولیس جانچ کے بعد خارج، ماحول خراب کرنے کی کوشش ناکام

جانچ کہ بعد پولیس نے یہ کہتے ہوئے ایف آئی آر ختم کر دی کہ اس شکایت میں کوئی سچائی نہیں ہے، نماز ادا کرنے والے افراد کا بھی یہی کہنا تھا کہ ذاتی رنجش کی وجہ سے یہ سب کیا گیا ہے۔

نماز، علامتی تصویر یو این آئی
نماز، علامتی تصویر یو این آئی
user

ناظمہ فہیم

بزرگوں کی قربانی سے ملک تو آزاد ہو گیا مگر کچھ لوگ ابھی ایسے ہیں جو فرقہ پرستی اور مذہبی دشمنی کے غلام ہیں اور آئے دن ایسی شرپسندی کو انجام دیتے ہیں جس کی وجہ سے پرامن ماحول زہر آلودہ ہوجاتا ہے۔ ایسے نفرت کے غلاموں و سوداگروں کی وجہ سے ملک کی سب سے بڑی اقلیت دشواریوں کا شکار ہے، ان نفرت بازوں کی وجہ سے مذہبی عبادت کرنے میں اقلیتی طبقہ کو رکاوٹ کا سامنا ہے۔

مرادآباد کے تھانہ جھلیٹ کے گاؤں دولہا پور میں اس وقت ماحول زہر آلودہ ہو گیا جب راجکمار سینی نام کے ایک شخص نے اپنے ساتھیوں کہ ساتھ مل کر پولیس میں شکایت کی کہ ایک گھر میں باجماعت نماز ادا کی جا رہی ہے، پھر کیا تھا پولیس فوری ایکشن میں آئی اور واحد اور انوّار سمیت دو درجن افراد پر مقدمہ قائم کر دیا۔ جس کے بعد سیاسی سماجی تنظیموں سے جُڑے ذمہ داران سامنے آگئے اور اپنے اپنے انداز میں بیان بازی کرنے لگے۔ حالانکہ جانچ کہ بعد پولیس نے یہ کہتے ہوئے ایف آئی آر ختم کر دی کہ اس شکایت میں کوئی سچائی نہیں ہے۔

مراد آباد: گھروں میں باجماعت نماز کے خلاف داخل ایف آئی آر پولیس جانچ کے بعد خارج، ماحول خراب کرنے کی کوشش ناکام

نماز ادا کرنے والے افراد کا بھی یہی کہنا تھا کہ ذاتی رنجش کی وجہ سے یہ سب کیا گیا ہے در اصل اس گاؤں میں تقریباً بیس فیصد آبادی اقلیتوں کی ہے اور گاؤں میں ایک بھی مسجد نہیں ہے جہاں اقلیتی طبقہ اپنی عبادت کر سکے یہاں کے لوگ اپنے گھروں میں ہی عبادت کرنے کو مجبور ہیں، آزاد ہندوستان میں جس کے آئین میں لکھا ہے کہ ہر ایک مذہب کہ ماننے والوں کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے اور زندگی گزارنے کی اجازت ہے تو پھر یہ کس کی ذمہ داری ہے کہ اقلیتوں کو عبادت گاہ بنا کر دے، واحد کہ مطابق گاؤں کے لوگ کئی بار عرضی لگا چکے ہیں کہ اُنہیں عبادت گاہ تعمیر کرنے کی اجازت دی جائے، مگر کبھی اُس عرضی پر سنوائی نہیں ہوئی۔

جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ اجتماعی عبادت سے محروم ہیں یہاں تک کہ رمضان المبارک میں تراویح کی نماز ادا کرنے سے بھی قاصر ہیں، ایک دو بار کوشش کی گئی تو شکایت کی وجہ سے روک دیا گیا، اسی علاقہ کے فتح پور بشنوئی گاؤں میں بھی ایک عبادت گاہ میں برسوں سے سرکاری تالہ پڑا ہے، یہاں کے لوگوں نے بھی بہت جدو جہد کی، مگر کامیابی نہیں ملی۔ گاؤں سے ہجرت کرنے کےاعلان سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا، آخر کار اس گاؤں کے لوگ بھی اپنے اپنے گھروں میں نماز ادا کرتے ہیں۔


مرادآباد کے ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر ایس ٹی حسن نے بھی دولہا پور گاؤں میں ہوئی اس کارروائی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہاں کے اقلیتوں کو عبادت گاہ تعمیر کرنے کی اجازت فراہم کرے اور اُن شر پسندوں کہ خلاف سخت قانونی کارروائی کر نے کی ہدایت دیں جنھوں ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔