ڈرائیور کے بیٹے معین احمد نے قرض لے کر تعلیم حاصل کی، کمپیوٹر آپریٹر کے طور پر ملازمت کی اور اب بنے گا کلکٹر

مراد آباد کے ٹھاکردوار کا ایک نوجوان معین احمد یو پی ایس سی میں کامیاب ہونے کے بعد لگاتار موضوعِ بحث ہے، اس کے والد ڈرائیور ہیں اور معین کی کامیابی کی داستان قابل ترغیب ہے۔

<div class="paragraphs"><p>معین احمد (درمیان میں)</p></div>

معین احمد (درمیان میں)

user

آس محمد کیف

مراد آباد کے ٹھاکردوار قصبہ کے ولی محمد کے گھر میں اس وقت خوشیاں ہی خوشیاں پھیلی دکھائی دے رہی ہیں۔ ان کے بیٹے معین احمد نے یو پی ایس سی میں کامیابی حاصل کر پورے خاندان کا نام روشن کر دیا ہے۔ ولی محمد جب کانٹریکٹ کی ملازمت پا کر بس ڈرائیور بنے تھے تو انھوں نے کچھ دن تک اس بات کو چھپائے رکھا تھا۔ صرف ان کا کنبہ جانتا تھا کہ وہ کانٹریکٹ پر ملازم ہیں یعنی عارضی ملازم۔ اس کام میں بے حد کم تنخواہ پر گزارا کرنا ہوتا ہے۔ ولی محمد بتاتے ہیں کہ سماج اور رشتہ داروں میں رتبے اور احترام کے لیے ضرورت مند نظر آنا خطرناک ہوتا ہے۔ بقول ان کے ان کی ملازمت کو اس وجہ سے ہی سرکاری بتایا جاتا رہا۔ حالانکہ ان کی امیدیں ان کے بیٹے پر مرکوز تھیں جس کے سہارے وہ کانٹریکٹ کی تکلیف دہ ملازمت سے آگے بڑھنا چاہتے تھے۔

16 سال کی عمر میں پڑھائی کے ساتھ اہل خانہ کو معاشی مدد دینے میں مصروف معین نے کمپیوٹر آپریٹر کے طور پر کام سیکھنا شروع کیا تھا اور پھر وہ پبلک سنٹر سروس سے جڑ کر کام کرنے لگا۔ کچھ سالوں تک معین نے نہ صرف اپنی پڑھائی کا خرچ خود اٹھایا بلکہ گھر والوں کا سہارا بنا۔ ولی محمد کہتے ہیں کہ وہ 20 سے 25 ہزار روپے ماہانہ کما رہا تھا۔ ہم اس سے پوری طرح مطمئن تھے۔ ایک دن اس نے اچانک کہا کہ دہلی جا کر یو پی ایس سی کی تیاری کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے بیٹے کا یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جس سے ہمارا کنبہ یقینی طور پر متاثر ہونے والا تھا۔ معین جو پیسے کما رہا تھا وہ بند ہو رہے تھے اور اس کے علاوہ یو پی ایس سی کی تیاری میں بھی مثبت نتیجہ کی گارنٹی نہیں تھی۔ معین کو اپنا فیصلہ خود ہی لینا تھا۔ وہ ہمیشہ گھر والوں کے ساتھ کھڑا رہا تھا، تو اب گھر والوں کو بھی اس کے ساتھ کھڑے ہی رہنا تھا۔ معین احمد دہلی جا کر یو پی ایس سی کی تیاری میں مصروف ہو گیا۔ ظاہر ہے پیسے کی دقت آنی تھی تو میں نے کئی بار رشتہ داروں اور دوستوں سے پیسے قرض لے کر معین کو بھیجے۔

ڈرائیور کے بیٹے معین احمد نے قرض لے کر تعلیم حاصل کی، کمپیوٹر آپریٹر کے طور پر ملازمت کی اور اب بنے گا کلکٹر

قابل ذکر ہے کہ یو پی ایس سی کے حالیہ ریزلٹ میں مراد آباد کے معین احمد کو 296ویں رینک حاصل ہوئی ہے۔ اس ریزلٹ میں یوپی کی ہی ایشتا کشور نے ٹاپ کیا ہے۔ یہ ریزلٹ اس لیے بھی بحث کا موضوع بنا ہوا ہے کیونکہ اس بار ٹاپ 5 میں سے 4 لڑکیاں ہیں۔

بہرحال، معین احمد کے علاوہ آنجہانی سپاہی کے بیٹے آدتیہ پرتاپ سنگھ، راج مستری کے بیٹے شاداب، اور داروغہ کی بیٹی راشدہ خاتون کی بھی خاصی تعریف ہو رہی ہے۔ ان سبھی نے بے حد مشکل حالات میں بہتر نتائج حاصل کیے ہیں۔ معین احمد مراد آباد کے ٹھاکردوار کے جٹپورا گاؤں کا رہنے والا ہے۔ ان کا کنبہ بے حد جدوجہد کرنے والا ثابت ہوا ہے۔ معین کے والد ولی محمد کافی جذباتی ہو کر اپنی جدوجہد کی داستان سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ ایسے ہی کسی دن کا انتظار کر رہے تھے کیونکہ دنیا آپ کی کہانی تب سنتی ہے جب آپ کچھ کر کے دکھا دیتے ہو۔ میرے بیٹے نے وہ کر دکھایا ہے جو ہماری سوچ سے بھی باہر تھا۔ ہم تو کسی چھوٹی موٹی ملازمت سے بھی بہت خوش ہو جاتے، یہ تو بہت بڑی بات ہے۔

معین احمد کا کہنا ہے کہ مراد آباد سے دہلی جا کر یو پی ایس سی کی تیاری کرنے کا فیصلہ اس کا اپنا تھا، جس کی گھر والوں نے حمایت کی تھی۔ معین کا کہنا ہے کہ ’’میں پڑھائی میں ہمیشہ اچھا رہا ہوں اور اکثر ٹاپ کرتا تھا۔ مجھے یہاں تک پہنچنے میں ڈھائی سال لگے۔ میں پہلی کوشش میں صرف تین مہینے تیاری کی تھی، دوسری اور تیسری کوشش میں لگاتار بہتری ہوئی۔ تیسری کوشش میں مجھے کامیاب ہونے کی بہت امید تھی، لیکن کامیابی نہیں ملی۔ یہ وہ وقت تھا جب مجھے جھٹکا لگا اور مایوسی میرے آس پاس گھیرا بنانے لگی۔ تب میری فیملی نے مجھے بہت ہمت دی۔‘‘


معین کے مطابق ’’2006 سے میرے والد بس ڈرائیور کے طور پر ملازمت کر رہے تھے۔ یہ ملازمت بھی عارضی تھی۔ میری امی بھی ایک گھریلو خاتون ہیں۔ ہماری رشتہ داری اور فیملی میں کسی نے ایسی کوئی کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔ یو پی ایس سی ملک کا سب سے بڑا اور اہم امتحان ہے، اس لیے یقینی طور پر یہ خوشی کا ذریعہ تو بنا ہی ہے۔ میں سبھی نوجوانوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ سبھی پوری محنت اور لگن کے ساتھ پڑھائی کریں تو ہندی میڈیم میں بھی بہت زیادہ امکانات ہیں۔‘‘

معین احمد کے خاندانی دوست اور رشتہ دار خورشید احمد منصوری کہتے ہیں کہ معین کی کامیابی پورے سماج کو ترغیب دینے کا کام کرے گی۔ خاص کر انھوں نے جن مشکل حالات میں کامیابی حاصل کی وہ مثالی ہے۔ متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے معین اپنا روزگار چھوڑ کر خواب پورا کرنے دہلی گئے۔ رشتہ داروں میں کوئی افسر نہیں ہے اور بچپن سے ہی انھیں مثبت ماحول نہیں ملا۔ اگر کچھ سب سے خاص ہے تو وہ یہ ہے کہ معین احمد میں فطری صلاحیت ہے۔ یہ صلاحیت ایسی ہے کہ حالات سازگار نہ ہونے کے باوجود کامیابی کا راستہ تلاش کر لیتی ہے۔ مراد آباد کے باشندہ کامل منصوری کا کہنا ہے کہ معین احمد نے ایک ایسا راستہ کھول دیا ہے جو کئی نوجوانوں کو کامیابی کی طرف لے جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔