محمد زبیر کے خلاف 'ملک کی یکجہتی اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے' کا مقدمہ، یو پی پولیس کا الہ آباد ہائی کورٹ میں بیان
محمد زبیر کے خلاف غازی آباد پولیس نے نئی دفعات شامل کیں، جن میں بی این ایس (بھاریہ نیائے سمہتا) کی سیکشن 152 اور آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 66 شامل ہے۔ زبیر نے ہائی کورٹ میں ایف آئی آر کو چیلنج کیا ہے

تصویر سوشل میڈیا
آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کے خلاف غازی آباد پولیس کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر میں اب نئی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ یو پی پولیس نے بدھ کو کو الہ آباد ہائی کورٹ میں ان دفعات کے بارے میں آگاہ کیا۔ یہ ایف آئی آر یتی نرسنگھانند سرسوتی ٹرسٹ کی سکریٹری اودِتا تیاگی کی شکایت پر درج کی گئی تھی۔ اودِتا تیاگی کا کہنا تھا کہ محمد زبیر نے 3 اکتوبر کو نرسنگھانند کے ایک پرانے پروگرام کی ویڈیو کلپ شیئر کی تھی اور ان کا دعویٰ تھا کہ زبیر کا مقصد مسلمانوں کو نرسنگھانند کے خلاف تشدد پر اکسانا تھا۔
زبیر نے اس ایف آئی آر کو چیلنج کرتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ 25 نومبر کو ہونے والی سماعت میں ہائی کورٹ نے تحقیقات کرنے والے افسر کو ہدایت دی تھی کہ وہ آئندہ سماعت تک ایک حلف نامہ پیش کریں، جس میں ان دفعات کا واضح ذکر ہو جو زبیر کے خلاف مقدمے میں شامل کی گئی ہیں۔ عدالت میں جواب داخل کرتے ہوئے تفتیشی افسران نے بتایا کہ ایف آئی آر میں دو نئی دفعات شامل کی گئی ہیں، پہلی بی این ایس کی دفعہ 152 اور دوسری انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 66 ہے۔
واضح رہے کہ ابتدائی طور پر زبیر کے خلاف بی این ایس کی دفعات 196 (مذہب کی بنیاد پر مختلف گروپوں میں دشمنی بڑھانا)، 228 (جھوٹے شواہد تیار کرنا)، 299 (مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے ارادے سے دانستہ و بدخواہ عمل) اور 356(3) (ہتکِ عزت) اور 351(2) (دھمکی کے لیے سزا) کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
محمد زبیر نے ایف آئی آر کو منسوخ کرنے اور سخت کارروائی سے تحفظ کی درخواست کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں دائر کی گئی اپنی درخواست میں کہا ہے کہ ان کے پوسٹ میں یتی نرسنگھانند کے خلاف تشدد کی اپیل نہیں کی گئی تھی۔ انہوں نے صرف پولیس افسران کو نرسنگھانند کے عمل کے بارے میں آگاہ کیا تھا اور قانون کے مطابق کارروائی کی درخواست کی تھی اور یہ دو گروپوں کے درمیان نفرت یا عداوت بڑھانے کے مترادف نہیں تھا۔
زبیر نے بی این ایس کی دفعہ 152 (ہتکِ عزت) کو چیلنج کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ چونکہ نرسنگھانند کے اپنی ویڈیوز پہلے ہی عوامی سطح پر دستیاب تھیں، انہیں شیئر کر کے ان کے خلاف کارروائی کی درخواست ہتکِ عزت نہیں ہو سکتی۔
زبیر کی درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نرسنگھانند ایک نفرت انگیز تقریر کے کیس میں ضمانت پر تھے اور ان کی ضمانت کی شرائط میں یہ شامل تھا کہ وہ کوئی ایسا بیان نہیں دیں گے جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچائے۔ زبیر نے پولیس کو متنبہ کیا تھا اور قانون کے مطابق کارروائی کی درخواست کی تھی اور یہ اقدام کسی فرقہ وارانہ نفرت کو بڑھاوا دینے کے مترادف نہیں تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔