’تحریک عدم اعتماد‘ سے مودی حکومت کا سامنا آج!

نمبروں کی بنیاد پر مودی حکومت کے لیے ’تحریک عدم اعتماد‘ پیش کیا جانا بھلے خطرہ نہ ہو لیکن یہ اس کے لیے ’خطرے کی گھنٹی‘ ضرور ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

بجٹ اجلاس کے دوسرے مرحلے میں لوک سبھا میں مودی حکومت کے خلاف تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) اور وائی ایس آر کانگریس آج اسپیکر سمترا مہاجن کے سامنے تحریک عدم اعتماد پیش کر سکتی ہیں۔ یہ تحریک عدم اعتماد مودی حکومت کے لیے ’امتحان‘ تصور کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ بی جے پی وزراء کا کہنا ہے کہ لوک سبھا میں وہ اس تحریک کو بہ آسانی شکست دے دیں گے، لیکن مودی حکومت کے خلاف اٹھنے والی یہ آواز کئی معنوں میں اہمیت کی حامل ہے۔ آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والی دونوں ہی پارٹیاں ٹی ڈی پی اور وائی ایس آر کانگریس نے اس سے متعلق نوٹس پہلے سے ہی دے رکھا ہے۔ گزشتہ جمعہ کو ہی ان دونوں پارٹیوں نے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی کوشش کی تھی لیکن کامیابی نہیں مل سکی تھی۔ اس سلسلے میں ٹی ڈی پی نے 2 اور وائی ایس آر کانگریس نے 1 نوٹس پارلیمنٹ سکریٹریٹ میں جمع کیا ہوا ہے۔

تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی منشا ظاہر کرنے کے بعد دونوں ہی پارٹیاں اب اس کوشش میں مصروف ہیں کہ کسی طرح ان کے نوٹس کو قبول کر لیا جائے اور ممکن ہے کہ لوک سبھا اسپیکر وقفہ سوالات کے بعد حالات بہتر رہنے کی صورت میں یہ موقع فراہم بھی کریں۔ لیکن اس کے لیے 50 ممبران پارلیمنٹ کی حمایت حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ یہی سبب ہے کہ آندھرا پردیش کو خصوصی ریاست کا درجہ دیے جانے کا مطالبہ کرنے والی دونوں ہی پارٹیوں نے اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ گفت و شنید کا عمل بھی جمعہ سے ہی شروع کر رکھا ہے۔ ٹی ڈی پی نے تو اپنے ممبران پارلیمنٹ کے لیے وہپ بھی جاری کر دیا ہے تاکہ تحریک عدم اعتماد پیش کرتے وقت سبھی ایوان میں موجود رہیں۔

دوسری طرف مودی حکومت نے لوک سبھا میں اکثریت ثابت کرنے کا بھروسہ دلایا ہے۔ اس معاملے میں آندھرا پردیش بی جے پی کے سربراہ کے ہری بابو کا کہنا ہے کہ لوک سبھا میں بی جے پی کو مکمل اکثریت حاصل ہے اور وہ کسی بھی حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سبھی پارٹیاں ایک ساتھ آ بھی جائیں تو مودی حکومت کو نقصان نہیں پہنچا سکیں گیں۔ دراصل مودی حکومت تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے پر مطمئن اس لیے ہے کیونکہ لوک سبھا میں بی جے پی کے تنہا 274 اراکین ہیں جب کہ اکثریت کے لیے 272 اراکین کی ہی ضرورت ہے۔ اس طرح نمبروں کے مطابق مودی حکومت کو کسی طرح کا خطرہ نہیں ہے، لیکن اس کو ’خطرے کی گھنٹی‘ ضرور قرار دیا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ کانگریس، ڈی ایم کے، ٹی ایم سی، ایس پی کے علاوہ لیفٹ پارٹیوں نے بھی تحریک عدم اعتماد کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ اس حمایت کی وجہ سے ٹی ڈی پی اور وائی ایس آر کانگریس کے حوصلے بلند ہو گئے ہیں۔ جہاں تک لوک سبھا میں سبھی پارٹیوں کے اراکین کی تعداد کا سوال ہے، تو وہ اس طرح ہیں:

بی جے پی: 274، کانگریس: 48، اے آئی اے ڈی ایم: 37، ترنمول کانگریس: 34، بی جے ڈی: 20، شیو سینا: 18، ٹی ڈی پی: 16، ٹی آر ایس: 11، سی پی آئی: 9، وائی ایس آر کانگریس: 9، ایس پی: 7، ایس اے ڈی: 4، اے آئی یو ڈی ایف: 3، آر ایل ایس پی: 3، اپنا دَل: 2، آر ایل ڈی: 2، آئی یو ایم ایل: 2، جے ڈی ایس: 2، جے ڈی یو: 2، جے ایم ایم: 2، اے آئی ایم آئی ایم: 1، این پی پی: 1، پی ایم کے: 1، آر سی پی: 1، ایس ڈی ایف: 1، آزاد امیدوار: 3۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 19 Mar 2018, 11:24 AM