اراولی تنازعہ: ’مودی حکومت راجستھان کے ماحولیاتی ڈھانچے کو نقصان پہنچانے کی سازش کر رہی‘، اشوک گہلوت کا تلخ تبصرہ
اشوک گہلوت نے کہا کہ مرکز نے یہ اصول بنا کر ریاستوں کی طاقت چھین لی ہے کہ اگر ریاستی حکومت وقت پر نیلامی نہیں کر پاتی تو مرکزی حکومت نیلامی کر دے گی۔ یہ ریاستوں کے قدرتی وسائل پر جبراً قبضہ جیسا ہے۔
اراولی پہاڑی سلسلہ میں پہاڑوں کی نئی تعریف معاملہ پر مرکزی حکومت کو لگاتار تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ راجستھان کے سابق وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت بھی لگاتار مودی حکومت کے نئے قدم کی تنقید کر رہے ہیں۔ آج انھوں نے الزام عائد کیا کہ مودی حکومت راجستھان کے ماحولیاتی اور وفاقی ڈھانچے کو نقصان پہنچانے کی سازش کر رہی ہے۔ انھوں نے مرکزی وزیر بھوپیندر یادو کے ذریعہ اراولی علاقہ میں محض 0.19 فیصد نئی کانکنی سے متعلق بیان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ فیصلہ ماحولیات کو برباد کرنے والا ہے۔
اشوک گہلوت نے ایک بیان میں کہا کہ ’’مرکزی حکومت نمبرس کی بازیگری کر راجستھان کے ماحولیاتی و وفاقی ڈھانچے کو نقصان پہنچانے کا راستہ ہموار کر رہی ہے۔‘‘ بھوپیندر یادو کے بیان پر اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’محض 0.19 فیصد علاقہ میں کانکنی کا دعویٰ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے جیسا ہے، کیونکہ جائز کی آڑ میں جو ناجائز کانکنی ہوگی، اسے روکنا کسی حکومت کے بس کی بات نہیں ہے۔‘‘
سابق وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ ’’حکومت دعویٰ کر رہی ہے 1.44 لاکھ اسکوائر کلومیٹر کے مجموعی رقبہ کا محض 0.19 فیصد کانکنی کے لیے استعمال ہوگا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس 1.44 لاکھ اسکوائر کلومیٹر میں صرف پہاڑ نہیں ہیں، بلکہ حکومت نے 34 ضلعوں کے پورے رقبہ (جس میں شہر، گاؤں، کھیت اور میدان بھی شامل ہیں) کو اراولی کا علاقہ مان لیا ہے۔‘‘ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اشوک گہلوت نے کہا کہ حقیقی اراولی پہاڑی سلسلہ اتنے وسیع رقبہ میں نہیں ہے۔ کانکنی صرف پہاڑوں پر ہوگی۔ 34 ضلعوں کے مجموعی رقبہ کے تناسب میں 0.19 فیصد سننے میں کم لگتا ہے، لیکن جب اسے زمین پر اتاریں گے تو یہ تباہناک ثابت ہوگا۔ گہلوت نے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کے 0.19 فیصد کا مطلب 273.6 اسکوائر کلومیٹر یعنی تقریباً 68 ہزار ایکڑ زمین ہے۔ اگر چھوٹی کانوں (ایک ہیکٹیر/2.5 ہیکٹیر) کے پٹّے دیے جاتے ہیں تو یہاں 27200 کانیں جائز طریقے سے الاٹ ہو جائیں گی۔
کانگریس کے سینئر لیڈر نے بتایا کہ کانکنی کا اثر صرف کان تک محدود نہیں رہتا۔ سڑکوں کی تعمیر، ڈمپنگ یارڈ، کرشر اور اڑتی دھول آس پاس کی لاکھوں ایکڑ زرخیز زمین اور کھیتی کے ساتھ ساتھ پورے ماحولیات کو برباد کر دے گی۔ گہلوت نے مرکزی حکومت کے ذریعہ کان و معدنیات ڈیولپمنٹ و ریگولیٹری ایکٹ (ایم ایم ڈی آر ایکٹ) میں کی گئی 2 ترامیم کو بھی ریاستوں کی خود مختاری پر حملہ اور اراولی کو برباد کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔
اشوک گہلوت نے کہا کہ مرکزی حکومت نے یہ اصول بنا کر ریاستوں کی طاقت چھین لی ہے۔ نئے اصول کے مطابق اگر ریاستی حکومت وقت پر نیلامی نہیں کر پاتی، تو مرکزی حکومت خود نیلامی کر دے گی۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ ریاستوں کے قدرتی وسائل پر جبراً قبضہ جیسا ہے۔ ایسے میں اگر اراولی میں کانکنی پر کوئی ریاستی حکومت رضامندی نہیں ظاہر کرے گی تب بھی مرکزی حکومت وہاں کانکنی شروع کروا سکتی ہے۔‘‘ گہلوت نے الزام عائد کیا کہ ’مائنر‘ اور ’میجر‘ معدنیات کی تعریف بدل کر اور تحفظ والے علاقوں کی حد سے چھیڑ چھاڑ کر اراولی کو ختم کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ ایم ایم ڈی آر ایکٹ میں تبدیلی کر ریاستوں کی طاقت محدود کرنا، پرائیویٹ کمپنیوں کو کانکنی کا حق دینا، سی ای سی کو کمزور کرنا، سرسکا کے محفوظ علاقہ میں صرف 3 دن میں تبدیلی کا ماڈل بنانا اراولی کو برباد کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔