پبلک کی ہو رہی جاسوسی، مودی حکومت مانگ رہی سبھی فون کال کے ریکارڈ!

محکمہ ٹیلی مواصلات نے دہلی میں اس سال 2، 3 اور 4 فروری کے ’سی ڈی آر‘ طلب کیے۔ اتفاق سے اس وقت سی اے اے کے خلاف احتجاجی مظاہرے چل رہے تھے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

مرکز کی مودی حکومت گزشتہ کچھ مہینوں سے ملک کے کئی علاقوں میں سبھی موبائل صارفین کے کال ریکارڈس (سی ڈی آر) مانگ رہی ہے۔ حکومت کے ذریعہ یہ غیر معمولی مطالبہ محکمہ ٹیلی مواصلات کی مقامی یونٹوں کے ذریعہ ٹیلی فون آپریٹروں کو بھیجا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ دہلی، آندھرا پردیش ہریانہ، ہماچل پردیش، جموں و کشمیر، کیرالہ، اڈیشہ، مدھیہ پردیش اور پنجاب سرکل میں موبائل صارفین کے کال ریکارڈس کا مطالبہ حکومت کے ذریعہ کیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ کے ذریعہ موبائل صارفین کی نگرانی اور ضروری رازداری سے متعلق شرائط و ضوابط کی مبینہ خلاف ورزی کا سوال اٹھانے کے باوجود حکومت کے ذریعہ اس طرح کے اقدام کیے جا رہے ہیں جس سے اس بات کا اندیشہ ہوتا ہے کہ کیا عوام کی جاسوسی کی جا رہی ہے؟ نام شائع نہ کرنے کی شرط پر ایک ٹیلی مواصلات کمپنی کے سینئر افسر نے بتایا کہ ایسا گزشتہ کئی مہینوں سے ہو رہا ہے لیکن اس سال جنوری اور فروری میں ایسے مطالبات بڑے پیمانے پر کیے گئے ہیں۔ بڑھتے مطالبات کو دیکھتے ہوئے 12 فروری کو سیلولر آپریٹرس ایسو سی ایشن آف انڈیا (سی او اے آئی) نے محکمہ ٹیلی مواصلات کے سکریٹری انشو پرکاش کو ایک شکایت میں ان گزارشات کو لال جھنڈی دکھا دی۔ قابل ذکر ہے کہ سیلولر آپریٹرس ایسو سی ایشن سبھی اہم ٹیلی مواصلات آپریٹروں کی نمائندگی کرتا ہے۔


انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ میں شائع ایک خبر کے مطابق سی او اے آئی نے ایک نوٹ میں انشو پرکاش سے کہا ہے کہ خاص علاقوں کے لیے طلب کی گئی سی ڈی آر نئے الزامات کی وجہ بن سکتی ہے۔ خاص طور سے دہلی جیسی ریاست میں جہاں بہت سے وی وی آئی پی زون ہیں اور ان کے دفاتر ہیں۔ راجدھانی میں وزراء، اراکین پارلیمنٹ، ججوں وغیرہ کی رہائش گاہیں بھی ہیں۔

شائع رپورٹ کے مطابق دہلی سرکل میں 53 لاکھ یوزرس ہیں۔ محکمہ ٹیلی مواصلات نے دہلی میں اس سال 2، 3 اور 4 فروری کے سی ڈی آر طلب کیے۔ اتفاق سے اس وقت سی اے اے کے خلاف احتجاجی مظاہرے چل رہے تھے۔ یہ بھی قابل غور ہے کہ راجدھانی دہلی میں انتخابی تشہیر بھی 6 فروری کو ختم ہوئے اور اس کے دو دن بعد ووٹنگ ہوئی تھی۔ بہر حال، سی او اے آئی کا کہنا ہے کہ محکمہ ٹیلی مواصلات یونٹ نے اپنی گزارش میں سی ڈی آر کی ضرورت کیوں ہے، اس کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔


واضح رہے کہ سال 2013 میں راجیہ سبھا میں اس وقت کے اپوزیشن لیڈر ارون جیٹلی سمیت کئی سیاسی لیڈروں کے سی ڈی آر کے غلط استعمال کو لے کر ہنگامہ ہوا تھا۔ اس کے بعد کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت نے کال ریکارڈ حاصل کرنے کے لیے قوانین کو کافی سخت کر دیا تھا۔ اسی سال جاری نئے ضابطوں میں داخلہ سکریٹری سے منظوری کے بعد ایس پی رینک اور دیگر بڑی سطح کے افسران کو ٹیلی کام آپریٹروں سے سی ڈی آر مانگنے کا حق دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ایس پی کو ہر مہینے حاصل ہونے والے سی ڈی آر کے بارے میں ضلع مجسٹریٹ کو ایک لازمی رپورٹ دینی ہوتی تھی۔

دیکھا جائے تو اس وقت مودی حکومت نے سی ڈی آر کا جو مطالبہ کیا ہے وہ گائیڈ لائنس کے مطابق نہیں ہے۔ رابطہ کرنے پر ہندوستانی ٹیلی مواصلات ریگولیٹری اتھارٹی (ٹرائی) کے ایک سابق سربراہ نے بتایا کہ ’’یہ بہت غیر معمولی بات ہے۔ ایک بار جب ان کے پاس ایک ڈیٹا بیس ہوتا ہے تو وہ یہ پتہ لگانے کے لیے خاص نمبروں کو شبہات کے گھیرے میں لے سکتے ہیں کہ یوزر نے کس سے بات کی۔ ایک وجہ ہونی چاہیے (سی ڈی آر جانکاری مانگنے کے لیے)، جس کے بغیر یہ ایک منمانی کارروائی اور پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی ہے۔


بہر حال، تیلی کمپنی کے ایک سینئر افسر کا کہنا ہے کہ ’’وہ (حکومت) محض ایک شخص کا ڈیٹا نہیں مانگ رہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ اس دن علاقے میں ہر کسی کا ڈیٹا دیا جائے۔ یہ ریگولیٹری کی واضح خلاف ورزی ہے۔ کسی کا ڈیٹا دینے کے لیے ممکنہ وجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا آپریٹر حکومت کی گزارشات کو مان رہے تھے، انھوں نے کہا کہ ’’ہمارے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */