'اَن لاک' کے نام پر دعوے تو بہت کر رہی حکومت، لیکن سیاحتی مقامات کی حالت دِگر گوں

لاک ڈاؤن کے سبب معیشت کو ہوئے نقصان کو درست کرنے کے بارے میں مودی حکومت ہزار باتیں کرتی ہے لیکن سیاحتی مقامات سے جڑے لوگوں کی زندگی بے حال ہے اور کوئی ان کی روداد بھی نہیں سن رہا۔

تصویر گیٹی ایمج
تصویر گیٹی ایمج
user

وویک مکھرجی

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بغیر کوئی منصوبہ بنائے لاک ڈاؤن کا اعلان کرنے کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ جیسی پہاڑی ریاستوں میں سیاحت سے روزی روٹی حاصل کرنے والے لاکھوں لاکھ لوگوں کے سامنے تاریکی سے بھری ہوئی سردیاں آ کھڑی ہوئی ہیں۔ سیاحتی سرگرمیوں کے لحاظ سے مارچ سے جولائی کا وقت بہت اہم ہوتا ہے لیکن اس بار اس دوران سب کچھ ٹھپ رہا۔ ایسے ماحول میں سیاحت سے جڑے ہر شخص کی اپنی ایک الگ دردناک کہانی ضرور ہے، لیکن سب میں ایک بات یکساں ہے، اور وہ یہ کہ سردیوں میں جب پہاڑوں میں زندگی جم جائے گی تو انھیں غم کا پہاڑ برداشت کرنا پڑے گا۔

لاک ڈاؤن کی وجہ سے معیشت کو ہوئے نقصان کو درست کرنے کے بارے میں مودی حکومت ہزار باتیں کرتی ہے، لیکن سیاحتی سیکٹر پر منحصر لوگ ہر پالیسی اور مشورے سے پوری طرح غائب ہیں۔ ٹور آپریٹر، چھوٹے اور متوسط سائز کے ہوٹل، گیسٹ ہاؤس اور ہوم اسٹے کے مالک، سینکڑوں ٹریکنگ گائیڈ اور پورٹرس، رافٹنگ اور ایڈونچر ایکٹیویٹی آوٹ فٹ، موٹر سائیکل ٹور آپریٹر، ٹیکسی سروس پرووائیڈر، لائن پروڈکشن سروس پرووائیڈر سے لے کر فلم انڈسٹری، چھوٹے ریستوران اور ڈھابا مالکوں کی اس گرمی میں کوئی آمدنی نہیں ہوئی۔ اختصار میں کہیں تو سیاحتی نظام سے جڑے ہر شخص کا بنیادی وجود ہی خطرے میں ہے۔


رشی کیش واقع ریڈ چلی ایڈونچر کے پارٹنر وپن شرما کہتے ہیں "ایسا لگتا ہے کہ فیملی پر آئی کسی مصیبت کے وقت میں ہمیں ایک ناجائز بچے کی طرح چھوڑ دیا گیا ہے۔ گزشتہ 30-20 سالوں سے رشی کیس کا رافٹنگ طبقہ اتراکھنڈ حکومت کے لیے خزانہ اور بیرون ملکی کرنسی جمع کرتا رہا، قدرتی آفات میں بھی ہزاروں لوگوں کو روزگار فراہم کرتا رہا۔ لیکن جب ہم سب وبا کے سبب مشکل حالات میں ہیں، انھوں نے ہمیں پوری طرح سے کنارہ کر دیا ہے۔ کوئی بھی ہماری قسمت یا مستقبل کے بارے میں بات نہیں کر رہا۔ گرمیوں کے مہینوں کے دوران ہم جو کماتے ہیں، وہی سردیوں میں خرچ کرتے ہیں اور اگلے سیزن کو دھیان میں رکھتے ہوئے کام دھندے کے لیے ضروری سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ لیکن اب تو حالات انتہائی خراب ہیں۔"

ہماچل اور اتراکھنڈ دونوں کے لیے سیاحت معیشت کی ریڑھ ہے۔ 19-2018 میں ہماچل کا ریاستی جی ڈی پی 182000 کروڑ روپے تھا جس میں سیاحتی سیکٹر کا تعاون 6.6 فیصد یعنی 12012 کروڑ روپے تھا۔ یہ پیسہ 1.6 کروڑ گھریلو اور 356000 غیر ملکی سیاحوں کے آنے سے ملا۔ اسی طرح اتراکھنڈ میں محکمہ سیاحت کے مطابق 07-2006 اور 17-2016 کے درمیان اس سیکٹر کا جی ڈی پی میں 50 فیصد سے زیادہ تعاون رہا جو 5.03 فیصد کی سالانہ شرح سے بڑھتا رہا اور یہ اضافہ 2018 میں 3.1 کروڑ ملکی اور غیر ملکی سیاحوں سے آنے سے ہو سکا۔


وشال مہرا منالی کے ٹور آپریٹر ہیں اور وہ فلم انڈسٹریز کے لیے ضروری انتظام کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ گرمیوں کے دوران شوٹنگ کے لیے ان کے پاس لائن لگی رہتی تھی اور آج حالت یہ ہے کہ انھیں سبزی فروخت کر کے کام چلانا پڑ رہا ہے۔ انھوں نے اپنے دفتر کو سبزی کی دکان میں بدل دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں "اور کوئی راستہ نہیں۔ مارچ سے اپنے پرانے کام سے ایک پیسہ نہیں ملا۔ لیکن خرچ میں تو کوئی کمی آئی نہیں۔ آپ کو ای ایم آئی اور بل وغیرہ بھرنے ہی پڑتے ہیں۔"

4 جون کو وزارت برائے صحت اور خاندانی فلاح و بہبود کے ذریعہ جاری ہدایات کے بعد ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ حکومتوں کو ہوٹلوں کو سلسلہ وار طریقے سے کھولنے کی اجازت دی گئی ہے، لیکن اس کے لیے ایسی ایسی شرائط رکھی گئی ہیں جن سے سیاح آنے سے رہے۔ اس میں کووڈ-19 روکنے کی پوری ذمہ داری ہوٹلوں پر ڈال دی گئی ہے۔ روک سیاحوں پر بھی ہے لیکن اسے یقینی بنانے کا کام ہوٹلوں کا ہے۔ اس حکم میں ضروری کوارنٹائن میں رہنے کا انتظام کیا گیا ہے اور سیاحوں کے لیے ہوٹل سے باہر نکلنے پر روک ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی طرح کی خانہ پری کرنی ہوتی ہے۔ منالی ہوٹلیز ایسو سی ایشن کے سربراہ ڈولے راج کہتے ہیں "ان گائیڈ لائنس کے ساتھ کسی بھی ہوٹل والے کے لیے کام شروع کرنا ممکن ہی نہیں۔ ہم نے اگلے کچھ مہینوں تک کام نہیں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ کووڈ-19 پھیلنے کے لیے ہمیں ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے انفیکشن کو روکنے کی اپنی ذمہ داری ہم لوگوں پر ڈال دی ہے۔"


مئی میں اتراکھنڈ کے وزیر سیاحت ستپال مہاراج نے 500 سے زیادہ رجسٹرڈ رافٹنگ گائیڈس کو 5-5 ہزار روپے کی معاشی مدد دینے کا اعلان کیا، لیکن یہ بھی کورا وعدہ ہی رہا اور کسی کو بھی یہ امداد اب تک نہیں ملی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 18 Jul 2020, 5:11 PM