مودی حکومت نے کاغذوں پر دکھایا فرضی جنگل تو اقوام متحدہ نے کر دیا مسترد

مودی حکومت نے ایک رپورٹ میں پھلوں کے باغ، بانس و زراعتی علاقوں کو بھی جنگلاتی علاقوں میں شامل کر دیا تھا۔ اقوام متحدہ نے باغ و زراعتی وغیرہ علاقوں کو ہٹا کر دوبارہ رپورٹ پیش کرنے کے لیے کہا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

مہیندر پانڈے

کچھ دنوں سے وزیر اعظم کے اڈیشہ دورے کی خبریں آ رہی ہیں۔ سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ وزیر اعظم کے ہیلی کاپٹر کو اتارنے کے لیے ایک ہزار سے زیادہ درخت کاٹ ڈالے گئے۔ ان خبروں کے بعد جیسا کہ ہمشہ ہوتا ہے، ہر متعلقہ محکمہ انجان بن رہا ہے اور اپنی ذمہ داری سے پلہ جھاڑ رہا ہے۔ محکمہ جنگلات بتا رہا ہے کے درختوں کی صرف کانٹ چھانٹ کی گئی ہے جب کہ تصاویر نے بڑے بڑے درختوں کو پوری طرح کٹا ہوا دکھایا ہے۔

محکمہ جنگلات کے مطابق زمین ہندوستانی ریلوے کی ہے۔ ہندستانی ریلوے کے مطابق اس کی دیکھ ریکھ کی ذمہ داری پی ڈبلو ڈی کی ہے اور پی ڈبلو ڈی کے مطابق اسے اس سلسلے میں کچھ بھی پتہ نہیں ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ ہزار سے زیادہ درخت کاٹ ڈالے گئے۔ اس سے پہلے دہلی اور نوئیڈا میں درختوں کو کاٹنے پر تحریک چلانے تک کی نوبت آ گئی تھی۔ گروگرام میں بھی ایسا ہی ہور ہا ہے۔ بلیٹ ٹرین کے نام پر بڑے علاقوں کے جنگل کو ختم کیا جا رہا ہے۔

ان سب کے درمیان یہ خبر بھی ہے کہ یو این یعنی اقوام متحدہ نے حکومت ہند کو اپنے جنگلات کے اعداد و شمار پر از سر نو غور کرنے کے لیے کہا ہے، کیونکہ وہ حکومت کے جنگلوں کی تشریح سے مطمئن نہیں ہے۔ مرکز کی موجودہ حکومت اپنے آپ کو فضائی تبدیلی روکنے کے معاملوں چمپئن مانتی ہے اور اس کے لیے اقوام متحدہ میں اپنے لیے ایسے ہدف پیش کیےہیں جنھیں مکمل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔

فضائی تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہے اور جنگل اس گیس کے سب سے بڑے استعمال کنندہ ہیں۔ زیادہ جنگلی علاقے ہونے پر زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا وہ استعمال کریں گے اور فضا میں اس کی موجودگی پر کنٹرول ہوگا۔ ہندوستان نے اقوام متحدہ میں دعویٰ کیا ہے کہ سال 2030 تک وہ جنگلاتی علاقے کو اتنا بڑھا لے گا جس میں 2.5 سے 3 ارب ٹن تک کاربن ڈائی آکسائیڈ ختم ہو سکے گا۔ یہ کام آسان نہیں ہے، اس لیے کاغذوں پر ہی جنگلاتی علاقے بڑھتے جا رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق حکومت ہند کے ذریعہ گزشتہ سال پیش کردہ جنگلوں کے اعداد و شمار میں پھلوں کے باغ، بانس کا علاقہ، پام کا علاقہ اور زرعتی علاقوں کو بھی جنگلات میں شامل کر لیا گیا ہے۔ اس لیے جنگلی علاقے بڑھتے ہوئے معلوم پڑ رہے ہیں اور جنگلوں کے کٹنے کا اثر واضح نہیں ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے ہندوستان کو باغبانی، پھلوں کے باغ، بانس اور پام کے علاقے کو الگ کر کے صرف جنگلوں کے علاقے کو شامل کر رپورٹ دوبارہ پیش کرنے کے لیے کہا ہے۔

سائنسدانوں کے مطابق اگر یہ سارے علاقے جنگلاتی علاقوں ے الگ کر دئیے جائیں تو جو رپورٹ پیش کی گئی ہے اس میں 5 سے 12 فیصد تک کمی آ جائے گی۔ اقوام متحدہ کے سائنسدانوں کے مطابق ہندوستان کے کل جنگلاتی علاقے میں سے اگر درخت لگانے کے تحت شامل کیے گئے 33818 اسکوائر کلو میٹر علاقہ کو ہٹا دیا جائے تب کل جنگلی علاقہ میں تقریباً 5 فیصد کی کمی آ جائے گی۔ اپنے ملک کے مشہور ادارہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کے سائنسدانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ ملک کے جنگلی علاقے کے اعداد و شمار میں تقریباً 87910 اسکوائر کلو میٹر علاقہ تو چائے باغان، کافی باغان، یوکلپٹس، پھل، ربر اور پام کے علاقے ہیں جنھیں جنگل نہیں کہا جا سکتا اور انھیں جنگلاتی علاقہ سے باہر کرنے پر اس میں 12.7 فیصد تک کی کمی آ جائے گی۔

ان سب سے بے خبر سرکاری سطح پر کاغذوں پر ہی سہی، لیکن جنگلاتی علاقہ بڑھانے کی مہم چل رہی ہے۔ ہر ایک سرکاری رپورٹ جنگلاتی علاقہ بڑھنے کا دعویٰ کرتی ہے اور بین الاقوامی ریسرچ ان دعووں کو غلط بتاتے ہیں۔ گزشتہ سال وزیر ماحولیات نے کہا تھا کہ جنگلاتی علاقے کے معاملے میں ہم دنیا کے سرفہرست ممالک میں شامل ہیں، لیکن اس کے بعد ہی ایک بین الاقوامی تحقیق میں بتایا گیا کہ جنگلی جانوروں کے وجود پر خطروں کے متعلق ہندوستان دنیا کے سب سے نےک کے 5 ممالک میں شامل ہے۔ اسی طرح گلوبل فوریسٹ واچ نامی ادارہ کے مطابق ہندوستان کے سرکار ی اعداد و شمار کے مقابلے میں حقیقی جنگلاتی علاقہ تو 60 فیصد بھی نہیں ہے۔

اسٹیٹ آف فوریسٹ رپورٹ 2017 کے مطابق ملک میں سال 2015 کے مقابلے میں جنگلاتی علاقہ میں ایک فیصد اضافہ درج کیا گیا۔ اس رپورٹ کے مطابق ملک کی کل 802088 اسکوائر کلو مٹر علاقہ میں جنگل ہیں، جو ملک کے جغرافیائی علاقہ کا 24.39 فیصد ہے۔ اس پورے علاقے میں تقریباً 708 کروڑ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب ہوتا ہے۔ لیکن یہ دھیان رکھنا لازمی ہے کہ اس جنگل والے علاقے میں باغبانی اور سڑک و نہروں کے کنارے کے درخت، زراعتی علاقے اور یہاں تک کہ گھنی جھاڑیاں بھی شامل ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق ملک کے کل جغرافیائی علاقہ میں سے محض 2.98 فیصد علاقے میں بڑے جنگل ہیں۔

اتنا تو طے ہے کہ ہمارے ملک میں کاغذوں پر ہی جنگل لگتے ہیں اور بڑھتے ہیں۔ زمینی سطح پر تو صرف انھیں کاٹا جا رہا ہے، برباد کیا جا رہا ہے یا پھر امیروں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس حقیقت کو پہلے صرف ملک کے لوگ جانتے تھے اور اب اسے اقوام متحدہ بھی سمجھ گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔