مودی حکومت کے کتابچہ میں ایم جے اکبر اب بھی وزارتی عہدہ پر برقرار، لوگ حیران

’می ٹو مہم‘ کے شکار ایم جے اکبر نے گزشتہ سال اکتوبر میں وزیر مملکت برائے خارجہ کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا تھا لیکن ’پرواسی بھارتیہ دیوس‘ پر جو کتابچہ تقسیم کیا گیا اس میں وہ اب بھی عہدہ پر برقرار ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

وارانسی میں ’پرواسی بھارتیہ دیوس‘ کا آغاز ہو چکا ہے اور ساتھ ہی مرکزی حکومت تنازعہ کا شکار بھی ہو گئی ہے۔ 21 جنوری سے 23 جنوری تک چلنے والا یہ سہ روزہ پروگرام پہلے ہی دن سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بن رہا ہے۔ دراصل ’می ٹو‘ مہم کے شکار ایم جے اکبر کی تصویر وزارت خارجہ کے ’ڈیلی گیٹ کوَر کِٹ‘ میں لگی ہوئی ہے جس سے یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ جب انھوں نے اپنے عہدہ سےا ستعفیٰ دے دیا تو پھر ان کی تصویر شائع کیوں کی گئی!

وارانسی میں پرواسی بھارتیہ سمیلن کے افتتاح کے موقع پر جو بھی نمائندہ پہنچے ہیں انھیں کِٹ بطور تحفہ دی جا رہی ہے اور اس میں ایک ایسا بک لیٹ بھی شامل ہے جس کے صفحہ اول پر وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر خارجہ سشما سوراج، وزیر مملکت برائے خارجہ وی کے سنگھ کی تصویر شائع ہوئی ہے۔ ان کے ساتھ ایم جے اکبر کی بھی تصویر لگی ہوئی ہے۔ تصویر کے ساتھ ان کا عہدہ بھی وزیر مملکت برائے خارجہ لکھا گیا ہے۔ اس کتابچہ میں مودی حکومت کی اسٹریٹجی پر مبنی کامیابیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

کتابچہ پر ایم جے اکبر کی تصویر شائع ہونے کی خبر جیسے ہی برسرعام ہوئی، ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ مخالفین کے ذریعہ سوال اٹھایا جانے لگا ہے کہ وزیر مملکت برائے خارجہ کے عہدہ سےا ستعفیٰ دینے کے تین ماہ بعد بھی آخر کس طرح پرواسی بھارتیہ دیوس (یومِ غیر مقیم ہندوستانی) کے ڈیلی گیٹ کِٹ پر ایم جے اکبر کی تصویر کو جگہ دی گئی۔ سوشل میڈیا پر وائرل کچھ پوسٹ میں ایم جے اکبر کا مذاق بنایا جا رہا ہے تو کچھ یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا ان کی مرکزی کابینہ میں واپسی ہو گئی ہے!

قابل ذکر ہے کہ ایم جے اکبر پر 10 سے زیادہ خاتون صحافیوں نے جنسی استحصال کا الزام عائد کیا تھا۔ ’می ٹو مہم‘ کے پیش نظر ایم جے اکبر پر عائد کردہ الزام کے بعد سیاست کے ساتھ ساتھ میڈیا حلقوں میں بھی شور برپا ہو گیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گزشتہ سال 17 اکتوبر کو انھوں نے وزیر مملکت کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا تھا کہ ’’میں نے نجی صلاحیتوں کے ساتھ قانون کی عدالت میں انصاف حاصل کرنے کا فیصلہ لیا ہے، اس لیے میں عہدہ سے ہٹ جانے کو مناسب مانتا ہوں اور میرے خلاف لگے الزامات سے میں اپنی طاقت سے لڑوں گا۔‘‘ اس کے بعد ایم جے اکبر نے ان کے اوپر سب سے پہلے الزام عائد کرنے والی خاتون صحافی پریہ رمانی کے خلاف ہتک عزتی کا مقدمہ کیا۔ واضح رہے کہ وہ سال 2014 میں لوک سبھا انتخابات سے پہلے بی جے پی میں شامل ہوئے تھے اور 2016 میں انھیں حکومت میں شامل کیا گیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔