میر واعظ مولوی عمر فاروق نےمجوزہ وقف ایکٹ میں ترامیم پر تشویش کا اظہار کیا
عمر فاروق نے کہا کہ ایسے اداروں کو ریاست کی کم سے کم مداخلت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم، حکومت کی طرف سے مجوزہ ترامیم اس ادارے کی خودمختاری اور فعالیت کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
متحدہ مجلس علماءکے سربراہ اور حریت چیرمین میر واعظ مولوی عمر فاروق کی سربراہی میں علما کے ایک وفد نے جمعے کے روز پارلیمنٹ ہاوس میں جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی (جے پی سی) کے چیرمین شری جگدمبیکاپال کے ساتھ ملاقات کی ۔ملاقات کے دوران وفد نے مجوزہ وقف ایکٹ میں ترامیم کے حوالے سے گہری تشویش کا اظہار کیا۔ اطلاعات کے مطابق متحدہ مجلس علماءجو کہ جموں و کشمیر کی تمام بڑی اسلامی/مسلم تنظیموں، علماء اور تعلیمی اداروں کی نمائندہ جماعت ہے نے مجوزہ وقف ایکٹ میں ترامیم کے حوالے سے گہری تشویش کا اظہارکیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ’ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ترامیم مسلم کمیونٹی کے مفادات کے خلاف ہیں اور تمام تسلیم شدہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ وقف کی جائیدادیں مسلمانوں کی ذاتی ملکیت ہوتی ہیں جو اللہ کے نام پر اپنے معاشرے کی بہتری اور محروم طبقے کی مدد کے لیے وقف کی جاتی ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے مذہبی/سماجی اداروں کو ریاست کی کم سے کم مداخلت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم، حکومت کی طرف سے مجوزہ ترامیم اس ادارے کی خودمختاری اور فعالیت کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہمارا پہلا اعتراض حکومت کی طرف سے کلکٹر کے ذریعے وقف پر قبضے کی تجویز پر ہے۔ کلکٹر کو وقف جائیدادوں کو "سرکاری جائیدادوں" میں تبدیل کرنے کا مکمل اختیار دیا گیا ہے۔ وہ صرف احکامات جاری کرکے اور ریونیو ریکارڈ میں اندراجات کو تبدیل کرکے ایسا کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ، کلکٹر کو متنازعہ اور غیر متنازعہ وقف جائیدادوں کے حوالے سے جو من مانے اختیارات دیے گئے ہیں، وہ ان پر بے حد کنٹرول فراہم کرتے ہیں۔ یہ اقدام وقف ایکٹ کے اصل مقصد کو کمزور کرتا ہے، جو کہ مسلم کمیونٹی کے افراد کی جانب سے مذہبی اور خیراتی مقاصد کے لیے وقف جائیدادوں کا تحفظ اور نگہداشت کرنا ہے۔
دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مرکزی وقف کونسل میں غیر مسلم اراکین کی تعداد کو 13 اور ریاستی وقف بورڈز میں 7 تک بڑھایا جا رہا ہے، جبکہ پہلے تمام اراکین (سوائے ایک کے) مسلمان ہوتے تھے اور وہ منتخب کیے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ وقف بورڈ کے سی ای او کے مسلمان ہونے کی شرط بھی ختم کر دی گئی ہے۔ یہ مجوزہ تبدیلیاں مکمل طور پر ناقابل قبول ہیں کیونکہ یہ ریاست کی نامزد کردہ غیر مسلم اراکین کی براہ راست مداخلت کے ذریعے وقف بورڈ کی آزادانہ کارکردگی کو بری طرح متاثر کریں گی۔
ایک اور سنگین مسئلہ "وقف بائے یوزر" کی شق کا خاتمہ ہے، جو یہ تسلیم کرتی تھی کہ کسی پراپرٹی کو طویل عرصے سے مذہبی اور خیراتی مقاصد کے لیے وقف کے طور پر استعمال کرنا اسے وقف کے طور پر مقرر کرتا ہے۔ "وقف بائے یوزر" کا خاتمہ نہ صرف وقف کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ مساجد اور دیگر اوقاف جیسے مدارس، درگاہوں، آستانوں اور قبرستانوں پر کمیونل دعووں کو بڑھا دے گا جو صدیوں سے موجود ہیں لیکن ریونیو ریکارڈ میں اس طرح درج نہیں ہیں، اور یہ ریاستی حکام کے ذریعے غیر قانونی قبضے کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ صورتحال کمیونٹی کے لیے بہت پریشان کن ہے۔
مزید یہ کہ مجوزہ ترامیم حکومت کو وقف جائیدادوں کو محفوظ جائیدادوں کی فہرست سے نکالنے کا اختیار دیتی ہیں۔ اس سے حکومت کو قیمتی وقف جائیدادوں پر قبضہ یا فروخت کرنے کا موقع ملے گا، جس سے مسلم کمیونٹی اپنی مذہبی اور خیراتی سرگرمیوں کی حمایت کے لیے وسائل سے محروم ہو جائے گی۔ مجوزہ ترامیم مسلم پرسنل لا کی خلاف ورزی ہیں، جو کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت محفوظ ہے۔ ان ترامیم سے مسلم کمیونٹی کے اندر عدم تحفظ اور بے اعتمادی میں مزید اضافہ ہوگا، جو پہلے ہی دباو محسوس کر رہی ہے کہ ان کی مذہبی جائیدادیں سرکاری مداخلت سے محفوظ نہیں رہیں گی۔ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ مسلم اکثریتی علاقہ جموں و کشمیر ان ترامیم کو اپنی مذہبی آزادی اور اداروں کی خودمختاری کو کمزور کرنے کی ایک اور کوشش کے طور پر دیکھتا ہے۔
لہٰذا، ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ ان مجوزہ ترامیم پر نظرثانی کریں اور انہیں مسترد کریں، اور مسلم کمیونٹی کے ساتھ تعمیری بات چیت کریں تاکہ ان خدشات کو دور کیا جا سکے اور ان سے تجاویز لی جا سکیں کہ وہ وقف ایکٹ میں کس قسم کی تبدیلیاں چاہتے ہیں، اگر کوئی ہوں، تاکہ یہ ان کے فائدے کے لیے زیادہ مو ثر بنایا جا سکے اور ان پر یہ امتیازی ترامیم زبردستی نہ تھوپی جائیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔