جامعہ کا اقلیتی کردار: یونیورسٹی کا کوئی وکیل عدالت کیوں نہیں گیا؟ 

ہم جامعہ کے اقلیتی کردار سے متعلق کسی بھی مداخلت کے خلاف ہیں اور مشاورت جامعہ کے اقلیتی کردار کو لے کر بہت سنجیدہ ہے: نوید حامد

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا معاملہ ایک مرتبہ پھر سرخیوں میں ہے اور اس تعلق سے جس رویہ کا مظاہرہ جامعہ کی انتظامیہ نے کیا ہے وہ انتہائی تشویش کا پہلو ہے ۔ تشویش اس لئے ہے کہ ذرائع کے مطابق یونیورسٹی سے جڑے اتنے اہم معاملے میں ادارہ نے اپنا کوئی وکیل عدالت نہیں بھیجا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یونیورسٹی کے تعلق سے جو حلف نامہ پچھلی حکومت نے داخل کیا تھا اس کو عدالت نے رد کر دیا اور موجودہ حکومت کو نیا حلف نامہ داخل کرنے کے لئے کہا ۔

واضح رہے کہ سال 2011 میں یو پی اے- 2حکومت کے آخری دور میں اس وقت کے وزیر برائے فروغ انسانی وسائل کپل سبل نے عدالت میں ایک حلف نامہ داخل کیا تھاجس میں یہ تحریر کیا گیا تھا کہ چونکہ قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ(این سی ایم ای آئی) نے یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ ایک اقلیتی ادار ہ ہے اور حکومت کو کمیشن کا فیصلہ منظور ہے ۔ اس ماہ5مارچ کوموجودہ حکومت نے عدالت میں درخواست داخل کی تھی جس کی سماعت 13مارچ کو شروع ہوئی ۔ وزارت برائے فروغ انسانی وسائل نے ایک درخواست داخل کی تھی جس میں یہ کہا گیا تھاکہ موجودہ حکومت کا موقف سابقہ حکومت سے مختلف ہے اور اس تعلق سے حکومت نیا حلف نامہ داخل کرنا چاہتی ہے کیونکہ حکومت جامعہ کو اقلیتی ادارہ نہیں مانتی۔اس پر عدالت نے اس معاملے میں جو دوسرے پٹیشنر تھے ان سے حکومت کے اس موقف کے بارے میں اور ان کے اعتراضات کے بارے میں پوچھا۔ ان پٹیشنر س نے عدالت سے کہہ دیا کہ ان کو کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ واضح رہے کہ جو پٹیشنر وہاں موجود تھے ان کا موقف بھی وہی ہے جو موجودہ حکومت کا ہے۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ ذرائع کے مطابق اتنے اہم معاملے کی سماعت ہو رہی ہو اور جو اہل معاملہ ہے یعنی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی، اس کا ہی کوئی وکیل عدالت میں موجود نہیں تھا ۔ لہٰذا وہی ہوا جو کسی فریق کی عدم نمائندگی کی صورت میں ہوتا ہے اور عدالت نے فوراً سابقہ حکومت کے حلف نامہ کو رد کر دیا اور وزارت سے نیا حلف نامہ داخل کرنے کے لئے کہا۔

جامعہ کےاس رویہ پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے مسلم مجلس مشاورت نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور رجسٹرار سے وضاحت طلب کی ہے ۔ مشاورت کے صدر نوید حامد نے کہا ہے کہ ’’ہم جامعہ کے اقلیتی کردار سے متعلق کسی بھی مداخلت کے خلاف ہیں اور مشاورت جامعہ کے اقلیتی کردار کو لے کر بہت سنجیدہ ہے۔‘‘

تعلیم کے میدان میں سرگرم عمل فیروز بخت احمد کا کہنا ہے کہ ’’جامعہ رام بھروسے ہی چل رہی ہے اور عدالت میں اس کے اقلیتی کردار کے تعلق سے جو خبر ہے کہ عدالت میں سماعت کے دوران جامعہ کا کوئی وکیل نہیں پہنچا، تو اس کے لئے تو وہی ذمہ دار ہوتا ہے جو ادارہ کا ہیڈ ہوتا ہے۔ اس لئے یہ واضح ہے کہ وائس چانسلر ہی اس کے لئے ذمہ دار ہیں ۔لوگ مانتے ہیں کہ جامعہ کا اقلیتی کردار ہے تو وہ کردار برقرار رہنا چاہئے‘‘۔ فیروز بخت کا ماننا ہے کہ ’’وائس چانسلر کو شاید یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اگر حکومت کے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے تو ان پر جو بدعنوانی کے معاملات چل رہے ہیں اس میں حکومت ان کی مدد کرے گی‘‘۔ واضح رہے جامعہ کے وائس چانسلر پروفیسر طلعت احمد نے لندن کے دورے پر ہیں اور اس ہفتہ واپس آ جائیں گے ۔

اس تعلق سے حکومت کاعدالت میں کہنا ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ بورڈ کے لئے انتخاب ہوتا ہے اور یہ لازمی نہیں کہ اس کا حصہ صرف مسلمان ہی ہوں ۔ ایسے حالات میں جامعہ کے اقلیتی کردار کو برقرار رکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔علاوہ ازیں حلف نامہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جامعہ اقلیتی ادارہ اس لئے بھی نہیں ہے کیونکہ پارلیمانی ایکٹ کے تحت مرکزی حکومت کی طرف سے فنڈ فراہم کیا جاتا ہے۔

جامعہ کے سابق طالب علم محمد شاکر کا اس معاملے میں کہنا ہے کہ ’’یہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ اتنے اہم معاملے میں جامعہ کی جانب سے کوئی وکیل نہیں تھا اور اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جامعہ انتظامیہ حکومت کی اس معاملے میں مدد کرنا چاہتی ہے اور اس کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ جامعہ کا اقلیتی کردار برقرار رہے یا نہ رہے‘‘۔

جامعہ کے ریسرچ اسکالر شاہنواز حیدر شمسی مرکزی حکومت کے ذریعہ داخل حلف نامہ پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’موجودہ مرکزی حکومت ملک اور اقلیت دشمن ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیم دشمن بھی ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اقلیتی ادارہ اس لیے ہے کیونکہ اس کی بنیاد اقلیتی طبقہ سے جڑی ہوئی ہے۔ جامعہ کو جب مرکزی یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا تو مرکزی حکومت کی جانب سے فنڈ حاصل ہونے لگے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس ادارہ کا اقلیتی کردار ہی ختم ہو گیا‘‘۔

جامعہ کے اقلیتی کردار کے تعلق سے شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ڈاکٹر شہزاد انجم کا کہنا ہے کہ ’’جامعہ ملیہ اسلامیہ کا اقلیتی کردار اب ایک سیاسی معاملہ بن چکا ہے۔ مرکزی حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ اقلیتوں کی تعلیمی صورت حال بہتر نہیں ہے اس لیے ہندوستان میں موجود سینکڑوں اداروں میں سے اگر کچھ ادارے اقلیتی ہیں تو اس پر کوئی اعتراض نہ کیا جائے ۔اقلیت ہندوستان کے باہر نہیں رہتے، ہندوستانی باشندے ہی ہیں۔ اس لیے حکومت کو ہمدردی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور موقع دینا چاہیے کہ اقلیتی طبقہ بھی آگے بڑھیں اور ملک کی ترقی میں اہم کردار نبھائیں‘‘۔

قابل ذکر ہے کہ سال 2011 میں این سی ایم ای آئی نے کہا تھا کہ جامعہ کا قیام مسلمانوں کی جانب سے ، مسلمانوں کے مفاد میں کیا گیا ہے اور یہ ادارہ کی اپنی ایک مسلم شناخت ہے ۔ بعد ازاں جامعہ کے ہر کورس کی نصف سیٹیں مسلم طالب علموں کے لئے مختص کر دی گئیں ۔ مسلم طلبا کے لئے جہاں 30 فیصد نشستیں مختص کی گئیں وہیں بالترتیب مسلم خواتین اور مسلم پسماندہ طبقات اور مسلم قبائلیوں کے لئے 10 -10 سیٹیں مختص کی گئیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 21 Mar 2018, 7:05 PM