کم آبادی والی برادریوں کو ریاستوں میں مل سکتا ہے اقلیتی درجہ، سپریم کورٹ میں مرکز کا حلف نامہ

درخواست گزار کا دعویٰ ہے کہ لداخ، میزورم، لکشدیپ، کشمیر، ناگالینڈ، میگھالیہ، پنجاب، منی پور اور اروناچل پردیش وغیرہ میں یہودی، بہائی اور ہندو مت کے پیروکار اقلیت میں ہیں۔

سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

نئی دہلی: مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ جن ریاستوں میں ہندو یا دیگر برادریوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی کم آبادی ہے وہاں مذہب اور زبان کی بنیاد پر متعلقہ گروپ کو اقلیتی برادری قرار دیا جا سکتا ہے۔ مرکزی وزارت برائے اقلیتی امور نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اور ایڈوکیٹ اشونی کمار اپادھیائے کی جانب سے مفاد عامہ کی عرضی پر جاری کردہ نوٹس کے جواب میں حلف نامہ داخل کرکے عدالت عظمیٰ کے سامنے اپنی رائے پیش کی ہے۔ درخواست میں کئی ریاستوں میں ہندوؤں اور دیگر کمیونٹیز کی کم آبادی کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں اقلیتی برادری کا درجہ دینے کی درخواست کی گئی ہے۔

درخواست گزار کا دعویٰ ہے کہ لداخ، میزورم، لکشدیپ، کشمیر، ناگالینڈ، میگھالیہ، پنجاب، منی پور اور اروناچل پردیش وغیرہ میں یہودی، بہائی اور ہندو مت کے پیروکار اقلیت میں ہیں۔ عرضی گزار کا دعویٰ ہے کہ ہندو 10 ریاستوں میں اقلیت میں ہیں، لیکن وہ اقلیتوں کے لیے بنائی گئی مرکزی اسکیموں سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہے ہیں، اس لیے عدالت مرکزی حکومت کو ریاستی سطح پر اقلیتوں کی شناخت کے لیے رہنما خطوط جاری کرنے کی ہدایت دے۔


مرکزی حکومت کے حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ ریاستی حکومتیں ریاست میں اقلیتوں کی شناخت کے لیے رہنما خطوط وضع کرنے پر غور کر سکتی ہیں۔ اقلیتی قرار دی گئی کمیونٹیز بھی تعلیمی اداروں کے قیام اور ان کے انتظام کا کام انجام دے سکتی ہیں۔ تاہم مرکزی حکومت نے اپنے حلف نامے میں یہ بھی کہا ہے کہ اقلیتوں کے معاملے میں قانون بنانے کا اختیار اکیلے ریاستوں کو نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ قانون بنانے کا اختیار صرف ریاست کو دینا آئینی اسکیم اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہوگا۔

مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ نے آئین کے آرٹیکل 246 کے تحت (شیڈول VII کو کنکرنٹ لسٹ میں داخلہ 20 کے ساتھ تشکیل کردہ ) اقلیتوں کے قومی کمیشن 1992 کو نافذ کیا ہے۔ اقلیتی موضوعات پر قانون بنانے کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہونے کا تصور، اگر اسے قبول کر لیا جائے تو پارلیمنٹ کو اس کے اختیارات سے محروم کرنے کے مترادف ہو گا، جو کہ آئینی اسکیم کے خلاف ہو گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔