کشمیر میں بچے کہاں تک کھیلیں، کھیلتے کھیلتے تھک گئے ہیں

وادی میں تمام اسکول بند ہیں اور تابش اور اس کے دوست جیسے بچوں کے پاس مختلف کھیل کھیلنے، کارٹون دیکھنے، پینٹنگ کرنے یا قریبی رشتہ داروں کے گھر جانے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے۔

تصویر نیشنل ہیرالڈ
تصویر نیشنل ہیرالڈ
user

گلزار بھٹ

گلزار بھٹ

چوتھی جماعت کا طالب علم دس سالہ تابش نیلی ٹی شرٹ اور جینس پہنے آج کل کرکٹ کھیلنے میں مصروف ہے۔ وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ سری نگر سے 60 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع بارامولہ کے پرانے شہر کی گلیوں میں کرکٹ کھیلتا رہتا ہے۔ اپنے آٹھ دوستوں کے ہمراہ وہ تقریباً سات گھنٹے روز کرکٹ کھیلتا ہے۔ وہ اپنی پہلی ایننگس صبح تقریباً ساڑھے دس بجے شروع کرتے ہیں اور کچھ وقت کے لئے وہ دوپہر کے کھانے کے لئے ضرور رکتے ہیں لیکن سورج غرب ہونے تک بلے اور گیند کی جنگ جاری رہتی ہے۔

27 سالہ مقامی بلال احمد کا کہنا ہے ’’موجودہ ماحول میں ان بچوں کے لئے صرف کھیل ہی ہے اور کوئی کام نہیں ہے‘‘ وادی میں تمام اسکول بند ہیں اور تابش اور اس کے دوست جیسے بچوں کے پاس مختلف کھیل کھیلنے، کارٹون دیکھنے، پینٹنگ کرنے یا قریبی رشتہ داروں کے گھر جانے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے۔


واضح رہے 5 اگست کو جب سے مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کا خصوصی ریاست کا درجہ ختم کیا تھا جب سے وادی میں تمام تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں۔16 اگست کو گورنر کی قیادت والی انتظامیہ نے تمام تعلیمی اداروں کے کھولے جانے کا اعلان کیا تھا لیکن پابندیوں اور حالات کی وجہ سے طلباء اسکول گئے ہی نہیں۔ بلال احمد کا کہنا ہے کہ ’’پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کی صورت میں بچوں کے لئے اسکول جانا ممکن نہیں تھا اور پابندیوں کی وجہ سے اسکول کی وین چل نہیں سکتی تھیں‘‘۔

بلا ل کا مزید کہنا تھا کہ والدین کیسے اپنے بچوں کو اسکول بھیج سکتے ہیں جب ان کو یقین ہی نہیں ہے کہ کب صورتحال بگڑ جائے اور کب حالات قابو سے باہر ہو جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’آپ جو سکون یہاں دیکھ رہے ہیں یہ غیر یقینی ہے اور یہ کس لمحہ ختم ہو جائے یہ کسی کو نہیں معلوم اس لئے والدین اپنے بچوں کی جانوں کو تو خطرے میں نہیں ڈال سکتے‘‘۔ آٹھ سالہ بچے گھر میں بیٹھ کر کاغذ کی کشتی اور ٹوپی بنانے کے علاوہ زیادہ سے زیادہ ٹی وی پر کارٹون دیکھ سکتے ہیں۔ شہر میں لگی پابندیوں کی وجہ سے مقامی لوگ تو پریشان ہیں ہی لیکن بچوں کے پاس کھیل کے سوا کچھ نہیں ہے اور وہ کھیلتے کھیلتے تھک گئے ہیں اور شائد یہ پہلی مرتبہ ہوگا جب بچے کھیلتے کھیلتے تھک جائیں گے۔


سری نگر جہاں پابندیاں زیادہ سخت ہیں وہاں پر بچے باہر جانے کی ہمت بھی نہیں کر سکتے وہاں وہ گھر کے اندر ہی پینٹنگ کرتے ہیں یا پھر پرانے کھلونوں سے کھیلتے ہیں۔ سری نگر کے ہبہ کدل علاقہ میں رہنے والی گیارہ سالہ خدیجہ کا کہنا ہے ’’میں پرانے بلاکس سے بلڈنگ بناتی رہتی ہوں اور کارڈ بورڈ اور کاغذ پر اپنے رنگوں سے پینٹنگ بناتی رہتی ہوں‘‘۔ وہ بار بار یہ سوال پوچھتی رہتی ہے کہ اسکوں دوبارہ کب کھلیں گے۔

سری نگر سے دور کے علاقوں میں بچے سڑکوں پر کھیلتے نظر آتے ہیں یا پھر وہ اپنے رشتہ داروں کے گھر جاتے ہیں۔ قومی آواز کو ایک سرکاری اہلکار نے بتایا کہ اب کچھ کچھ بچے اسکول آنے لگے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔