مچونگ طوفان: تمل ناڈو حکومت نے مرکز سے 5000 کروڑ روپے مالی امداد کا کیا مطالبہ

تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن کا دعویٰ ہے کہ ریاست میں گردابی طوفان مچونگ کی وجہ سے تاریخی بارش ہوئی، لیکن اس بارش سے پہلے کے مقابلے بہت کم نقصان ہوا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آوازبیورو

گردابی طوفان مچونگ نے تمل ناڈو کو بے حال کر دیا ہے۔ کئی لوگوں کی موت ہو چکی ہے اور بے شمار لوگ موسلادھار بارش کے بعد سیلاب جیسے حالات سے پریشان ہیں۔ اس درمیان تمل ناڈو حکومت نے مرکزی حکومت سے 5 ہزار کروڑ روپے کی مالی امداد کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ مالی امداد گردابی طوفان مچونگ سے ہوئے نقصان اور انفراسٹرکچر کی از سر نو تعمیر کے لیے مانگی گئی ہے۔ راجیہ سبھا میں وقفہ صفر کے دوران اس ایشو کو اٹھاتے ہوئے ڈی ایم کے لیڈر تروچی شیوا نے یہ مطالبہ کیا۔

رکن پارلیمنٹ تروچی شیوا نے کہا کہ ریاست کی سڑکیں زوردار بارش کی وہج سے ندیوں میں تبدیل ہو گئی ہیں۔ ساتھ ہی سڑکوں کو اس بارش سے بہت نقصان ہوا ہے۔ کئی علاقوں میں بجلی کی فراہمی ٹھپ ہے۔ ڈی ایم کے رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ میں مرکزی حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ تمل ناڈو کے حالات کو دیکھتے ہوئے عارضی راحت کے طور پر ریاست کو 5 ہزار کروڑ روپے دیے جائیں۔ ان کی مدد سے ریاستی حکومت متاثرین کی مدد کے لیے ضروری اقدام کرے گی۔


تمل ناڈو میں مچونگ طوفان کے قہر کو دیکھتے ہوئے تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے ایک پریس کانفرنس بھی کیا ہے۔ اس میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ ریاست میں گردابی طوفان مچونگ کی وجہ سے تاریخی بارش ہوئی ہے، لیکن اس بارش سے پہلے کے مقابلے نقصان بہت کم ہوا ہے۔ چنئی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ گردابی طوفان کی وجہ سے ریاست میں 2015 سے بھی زیادہ بارش ہوئی، لیکن پہلے کے مقابلے میں بہت کم نقصان ہوا۔ 2015 میں جو سیلاب آیا تھا، وہ مصنوعی سیلاب تھا لیکن اس مرتبہ قدرتی وجہ سے سیلاب جیسے حالات بنے ہیں۔

وزیر اعلیٰ اسٹالن کا کہنا ہے کہ 2015 میں ریاست میں 4000 کروڑ روپے کی لاگت سے ریاست کی نہروں، ندیوں اور جھیلوں کی صفائی کرائی گئی تھی۔ اسی وجہ سے اس بار زیادہ نقصان نہیں ہوا ہے۔ 2015 میں بارش اور سیلاب کے سبب 199 لوگوں کی جان گئی تھی، لیکن اس بار ابھی تک صرف 8 لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ حالانکہ وزیر اعلیٰ نے یہ بھی اعتراف کیا کہ ان اموات کو بھی روکا جا سکتا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔