مسلم نوجوان کی ’پاکستانی‘ کہہ کر پٹائی، زبردستی داڑھی مونڈی

گروگرام میں کھلے عام مسلمانوں کے خلاف غنڈہ گردی کی جا رہی ہے، کچھ عرصہ پہلے غیر سماجی عناصر نے پارکوں میں نماز پڑھنے کو لے کر ہنگامہ کیا تھا اور اب ایک مسلم نوجوان کی زبردستی داڑھی مونڈ دی گئی۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

یونس علوی

ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم اور موب لنچنگ کا سلسلہ جاری ہے اور مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی خبریں عام ہیں۔ نفرتوں کا اس قدر بول بالا ہے کہ دنیا بھر میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے گڑھ کے طور شناخت بنانے والے گروگرام (گڑگاؤں )میں کھلے عام مسلمانوں کے خلاف غنڈہ گردی کی جا رہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے غیر سماجی عناصر نے پارکوں میں نماز پڑھنے کو لے کر ہنگامہ کیا تھا اور اب ایک مسلم نوجوان کی زبردستی داڑھی مونڈ دی گئی۔ احتجاج کرنے پر نوجوان اور نائی کو زد و کوب کیا گیا اور جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی۔

مسلم طبقہ کے لوگوں نے اس واردات کی سخت مذمت کی ہے اور ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر کے فوری گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

نوح ضلع کے گاؤں بادلی پونہانہ کے رہائشی ظفر الدین ولد حمیدہ(حمیدخان) گروگرام کے اِفکو چوک پر مسلم ڈھابہ چلاتا ہے۔ وہ منگل کی شام تقریباً 6 بجے اپنی دکان پر کام کرنے والے ابراہیم نامی ملازم کے ساتھ کھانڈسا واقع ایک مسلم نائی کی دکان پر بال کٹوانے کے لئے گیا۔ دکان میں پہلے سے ہی دو نوجوان بیٹھے تھے جن میں سے ایک کا نام گورو بتایا جا رہا ہے۔ ابراہیم اپنے بال کٹنے کا انتظار کرنے لگا ، ساتھ میں ظفر الدین بھی وہیں بیٹھ گیا۔ پہلے سے موجود نوجوانوں نے ظفرالدین کا نا م پوچھ کر اس کی داڑھی پر تبصرہ کرنا شروع کر دیا اور ملّا اور پاکستانی جیسے الفاظوں کا استعمال کرنے لگے، اس کے بعد ان دونوں نے نائی سے ظفر کی داڑی مونڈنے کو کہا ۔نائی کے انکار کرنے پر ان نوجوانوں نے دونوں کے ساتھ مار پیٹ کی۔پھر ظفر کو کرسی سے باندھ کر زبردستی اس کی داڑھی مونڈ دی ۔

ظفرالدین نے ’قومی آواز‘ کو بتایا ’’میں گڑگاؤں کے اِفکو چوک پر ڈھابہ چلاتا ہوں، شام کے وقت باورچی ابراہیم کے ساتھ میں ڈھابے کے لئے سبزی وغیرہ لینے کے لئے نکلا تھا، اس بیچ باورچی کے بال کٹوانے کے لئے ایک نائی کی دکان پر چلا گیا، وہاں انجان لوگ پہلے سے بال کٹوا رہے تھے۔ ‘‘

ظفرالدین نے بتایا ’’نائی کی دکان پر موجود لوگوں نے مجھے دیکھ کر میری داڑی پر فقرے کسنے شروع کر دیئے۔ انہوں نے کہا تو پاکستانی ہے ، اگر ہندوستانی ہوتا تو داڑھی نہیں رکھتا۔ میں نے ان لوگوں سے کہا کہ یہ میری مذہبی شناخت ہے اس لئے میں داڑھی نہیں کٹواتا۔ اس کے بعد وہ نوجوان طیش میں آ گئے اور مجھے پکڑ لیا اور کہنے لگے داڑھی تو تجھے کٹوانی پڑے گی۔ ‘‘

ظفرلدین نے مزیدبتایا ’’ان لوگوں نے مجھے زبردستی کرسی پر بیٹھا دیا اور نائی سے کہا کہ اس کی داڑھی صاف کر دے۔میں نے بھاگنے کی بہت کوشش کی ، لیکن انہوں نے بھاگنے نہیں دیا۔وہ مجھے مارنے پیٹنے لگے اورایک کپڑے سے کرسی سے باندھ دیا۔ ‘‘ ظفرالدین کے مطابق نائی چونکہ مسلمان تھا اس لئے اس نے داڑھی مونڈنے سے منع کیا تو ان لوگوں نے نائی کی بھی پٹائی کردی ، اس کے بعد زبردستی میری داڑھی منڈوا دی گئی۔

ظفرالدین اس واقعہ کے بعد سے کافی ڈرا ہوا ہے ، وہ مایوسی کی کیفیت میں بتا تا ہے ’’ہم مسلمان ہیں ، تو کیا ہمیں اپنے ملک میں جینے کا حق نہیں ہے! ہمارے خلاف سراسر ناانصافی کی جا رہی ہے، ہمیں پاکستانی کہا جاتا ہے، نماز پڑھنے پر پابندی لگائی جا رہی ہے، میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ ہمیں انصاف دیا جائے اور اس طرح کی غنڈہ گردی پر روک لگائی جائے۔‘‘

ظفرالدین نے اس معاملہ کی شکایت پولس میں کر دی ہے، سیکٹر 37 پولس تھانہ میں معاملہ درج کر لیا گیاہے، پولس کا کہنا ہے کہ اس معاملہ میں کارروائی کی جائے گی۔

ظفر الدین نے بتایا کہ اس واقعہ کے بعد اس نے 100 نمبر پر کال کی لیکن فون نہیں ملا، اس کے بعد اس نے کئی واقف کاروں کو فون کیا لیکن ڈر کی وجہ سے کوئی نہیں آیا۔ ظفرالدین کا کہنا ہے کہ ملزمان نے اس کی ویڈیوبھی بنائی اور پولس میں شکایت کرنے کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی۔

اس واقعہ پر میوات کے سماجی کارکن اختر حسین ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت نے گڑگاؤں کا نام بدل کر گروگرام کر دیا۔ لیکن جس طرح سے یہاں مسلمانوں پر حملے کئے جا رہے ہیں یہ نفرتوں کا شہر بن چکا ہے۔ یہاں کبھی نماز جمعہ کے نام پر اور اب داڑھی ٹوپی کے نام پر غنڈہ گردی کی جانے لگی ہے۔

اس واردات کے بعد سوشل میڈیا پر بھی ردعمل دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ایک طرف جہاں لوگ ہندووادی غنڈہ عناصر کی کرتوت پر برہم ہیں، وہیں مسلمانوں کی بزدلی پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔ میوات سے وابستہ آصف خان میو کہتے ہیں ’’گروگرام میں دو دہشت گردوں نے زبردستی مسلم نوجوان کی داڑی کٹوا دی، یہ افسوسناک واقعہ ہے۔ لیکن افسوس یہ بھی ہے کہ ایک تیسرا نوجوان اور نائی بھی وہاں پر موجود تھا انہوں نے بھی مزحمت نہیں کی! دکان میں پڑا پردہ نہیں ہٹا سکے، شور نہیں مچا سکے، لوگوں کو اکٹھا نہیں کر سکے، پولس کو نہیں بلا سکے۔ تو پٹو ، اب شور کیوں مچاتے ہو!۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 02 Aug 2018, 12:16 PM