بابری مسجد تنازعہ پر مصالحت ملکیت کی بنیاد پر ہونی چاہئے: ارشد مدنی

ارشدمدنی نے آج کی پیش رفت پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’ہم عدالت کے فیصلہ کا احترام کرتے ہیں اور پینل کو مکمل تعاون دیں گے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ پینل کے روبرو اپنی بات موثر اندازمیں رکھ سکیں۔‘‘

Getty Images
Getty Images
user

قومی آوازبیورو

بابری مسجد ملکیت مقدمہ میں آج بروز جمعہ ہندو فریقین کے تمام تر اعتراضات کے باوجود سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بینچ نے معاملہ کو مصالحت کے ذریعہ حل کئے جانے کے احکامات صادر کردیئے۔ نیز عدالت نے سپریم کورت کے سابق جسٹس فقیر محمد ابراہیم خلیفہ اللہ کی سربراہی میں ایک 3 رکنی پینل بھی تشکیل دے دیا، جس میں شری شری روی شنکراور مصالحت کاری کے ماہر وکیل شری رام پنچو شامل ہیں۔ جمعیۃ علما ہند نے ایک پریس بیان جاری کر کے یہ اطلاع دی۔

چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی، جسٹس اے ایس بوبڑے، جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس چندرچوراور جسٹس عبدالنظیر کی موجودگی میں وکلاء سے کھچا کھچ بھری عدالت میں فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ جس میں کہا گیا کہ مصالحت کا عمل فیض آباد میں انجام دیا جائے گا اور مصالحت کے دوران میڈیا کو رپورٹنگ کی اجازت نہیں ہوگی، دوسرے یہ کہ فریقین پینل کے روبرو بند کمرے میں مصالت کی کارروائی انجام دیں گے۔

چیف جسٹس نے زبانی طورپر فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا کہ مصالحت کے لئے معاملہ بھیجنے پر اعتراضات کے باوجود قانون میں دی گئی شق کی بنیادپر اس معاملہ کو ہم مصالحت کے لئے بھیج رہے ہیں، واضح ہوکہ پینل اس تعلق سے اپنی ابتدائی رپورٹ عدالت کو چار ہفتوں کے اندرمہیا کرائے گا اور آٹھ ہفتوں کے اندرپینل کو اپنی حتمی رپورٹ بھی پیش کرنی ہوگی۔

اس معاملہ میں اہم فریق جمعیۃ علماء ہند نے ایک جانب جہاں عدالت کے مصالحت کے مشورہ کا خیرمقدم کیا تھا وہیں ہندو فریقوں نے اس مشورہ کی شدید مخالفت کی تھی لیکن عدالت کے دباو میں اس نے بھی 3 ثالثوں کے نام پیش کئے تھے، جن میں سابق چیف جسٹس جگدیش سنگھ کہیر، سابق چیف جسٹس دیپک مشرا اور جسٹس اے کے پٹنائک شامل ہیں، لیکن آج عدالت نے ان کے ذریعہ تجویز کردہ تینوں ناموں کو یکسر مستردکرتے ہوئے ایک آزاد ثالثی پینل کا تقرر کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ دو سماعتوں سے سپریم کورت اس معاملہ کو مصالحت کے ذریعہ حل کرائے جانے کے امکانات پر غورکررہی تھی اور فریقین سے اس تعلق سے ان کی رائے بھی طلب کی تھی، جس کے دوران ہندوفریقین نے مصالحت کے مشورہ کو مستردکردیا تھا جبکہ جمعیۃ علماء ہند سمیت دیگر مسلم فریقین نے عدالت کے مشورہ کا احترام کرتے ہوئے عدالت سے معقول فیصلہ کرنے کی گزارش کی تھی۔ جس کے بعد آج عدالت نے اس معاملہ کو مصالحت کے لئے بھیج دیا۔

جمعیۃ علماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے آج کی پیش رفت پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم عدالت کے فیصلہ کا احترام کرتے ہیں ہم پینل کو اپنا مکمل تعاون دیں گے اور ہماری کوشش ہوگی کہ پینل کے روبرو اپنی بات موثر اندازمیں رکھ سکیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ جمعیۃ علماء ہند کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ آپسی بات چیت سے یہ تنازعہ حل ہوجائے لیکن فریق مخالف کی نمائندوں کی ہٹ دھرمی اور اڑیل رویہ کی وجہ سے ماضی میں بات چیت کے لئے ہونے والی ہر کوشش ناکام رہی۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو اس معاملہ میں ثبوت و شواہد کے بنیاد پر ہی فیصلہ چاہتے ہیں اور مصالحت کے لئے بھی اس وجہ سے تیار ہیں کہ فاضل عدالت مصالحت چاہتی ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ہم پہلے ہی اپنا موقف واضح کرچکے ہیں کہ یہ ملکیت کا معاملہ ہے اس لئے بات چیت اور مصالحت کی کوشش بھی ملکیت کی بنیادپر ہی ہونی چاہئے۔ آستھا کی بنیاد پر ہرگز نہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ عدالت کے حکم کے مطابق مصالحت کی مکمل کارروائی فیض آباد میں انجام دی جائے گی لیکن وہاں فریقین کو آنے جانے میں قدر پریشانی ہوسکتی ہے اور دوسری نوعیت کے خدشات بھی لاحق ہوسکتے ہیں، چونکہ معاملہ کاتعلق اترپردیش ہی سے ہے اور پینل کی تشکیل میں بھی ایسے لوگوں کی نامزدگی ہوئی ہے جن کا تعلق دوسری ریاستوں سے ہے، اس لئے مناسب تو یہی ہوگا کہ مصالحت کے عمل کیلئے فیض آباد اور یوپی کے بجائے اگر دہلی کا انتخاب کر لیا جائے تو کہیں زیادہ بہتررہے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو اس تعلق سے ہم لوگ مصالحت کاروں سے بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔

مولانا ارشد مدنی نے اس امر پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا کہ عدالتی پینل کا اعلان ہوتے ہی ایک بار پھر فرقہ پرستوں نے اشتعال انگیزی شروع کردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان عناصر کے خلاف سپریم کورت کو از خود نوٹس لینا چاہئے کیونکہ اس طرح کی شرانگیزی سے جہاں نقض امن کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے وہیں سماج میں ایک بار پھر فرقہ وارانہ صف بندی قائم ہوسکتی ہے اور کشیدگی میں اضافہ ہوسکتاہے۔

آج عدالت میں جمعیۃ علماء ہند کے وکلاء جس میں سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹرراجیو دھون ، ایڈوکیٹ آن ریکاڈر اعجاز مقبول کے علاوہ ایڈوکیٹ جارج، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے ، ایڈوکیٹ قرۃ العین،ایڈوکیٹ محمدعبداللہ، ایڈوکیٹ زین مقبول، ایڈوکیٹ ایوانی مقبول،ایڈوکیٹ کنور ادتیہ، ایڈوکیٹ ہمسینی شنکرو دیگر موجود تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 08 Mar 2019, 7:10 PM