دلت کے گھر کھانا یوگی کا ڈھونگ، لے کر جاتے ہیں اپنی روٹی اپنا برتن!

بہوجن سماج پارٹی کی صدر مایاوتی نے دلتوں کے گھر کھانا کھانے والے بی جے پی لیڈروں کی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سب ایک ڈھکوسلا اور نمائش کے علاوہ کچھ نہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

بی جے پی لیڈر جب کسی دلت کے گھر کھانا کھانے جاتے ہیں تو وہ اپنی روٹی اور اپنا برتن ساتھ لے کر جاتے ہیں اور ایسا ظاہر کرتے ہیں جیسے وہ دلت کے گھر کھانا کھا رہے ہیں۔ یہ بیان بی ایس پی سپریمو مایاوتی نے دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ سب دلتوں کو متوجہ کرنے کے لیے ایک ڈھکوسلا اور نمائش کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ لیڈر دلتوں اور پسماندہ طبقات کے لوگوں کی کوئی پروا نہیں کرتے لیکن انتخاب نزدیک آتے ہی تصویر کھنچوانے کے لیے دلتوں کے گھر کا چکر لگانے لگتے ہیں۔‘‘

مایاوتی نے بی جے پی کے ذریعہ دلتوں کو لبھانے کے لیے کی جا رہی ان کوششوں کو بے سود قرار دیا اور کہا کہ عوام حقیقت سے ناآشنا نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’لوگ لیڈروں کی اس چال کو سمجھ گئے ہیں اور اَب بے وقوف نہیں بننے والے۔‘‘ قابل غور ہے کہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے پیر کے روز پرتاپ گڑھ میں ایک دلت کے گھر کھانا کھایا تھا۔ وزیر اعلیٰ کے اس پروگرام کی خوب تشہیر بھی ہوئی تھی۔

مایاوتی نے بی جے پی لیڈروں پر دلتوں کے گھر کھانے کا ڈرامہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ بات سب جانتے ہیں کہ جب بھی یہ لیڈر دلتوں کے گھر کھانے کا ڈرامہ کرتے ہیں تو ان کے ساتھ ان کا کھانا اور برتن تک جاتا ہے۔‘‘ انھوں نے الزام عائد کیا کہ حقیقت میں تو یہ لیڈر دلتوں کے سائے سے بھی دور بھاگتے ہیں۔

پیر کے روز وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے دلت دیا رام سروج کے گھر کھانا کھایا تھا۔ اس سے پہلے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ اور مرکزی وزیر مینکا گاندھی بھی دلتوں کے گھر کھانا کھا کر سرخیوں میں آئی تھیں۔ دوسری طرف کرناٹک میں انتخابی اجلاس کر رہے بی جے پی صدر امت شاہ بھی دلتوں کے گھر کھانا کھاتے ہوئے دیکھے جا رہے ہیں۔ اَب اس کے بارے میں تصدیق کرنا ممکن نہیں کہ وہ اپنے ساتھ برتن اور کھانا لے کر جاتے ہیں یا واقعی دلتوں کے ہاتھوں سے بنا ہوا ہی کھانا کھاتے ہیں۔ لیکن مایاوتی نے جو الزام عائد کیا ہے وہ تو یہی ظاہر کرتا ہے کہ بی جے پی لیڈران محض نمائش کے لیے دلتوں کے گھر کھاتے ہیں۔ جو کچھ وہ کھاتے ہیں دراصل اپنے ساتھ ہی لے کر جاتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔