فیروز آباد: چچا-بھتیجے کے درمیان ہوگی ’یادووں کے قلع‘ پر قبضہ جمانے کی جنگ

اتر پردیش میں فیروز آباد لوک سبھا حلقہ کو یادووں کے قلع کا داخلی دروازہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں 23 اپریل کو ووٹنگ ہونی ہے۔ 2014 کی مودی لہر بھی اس علاقے میں یادووں کا قلع قمع نہیں کر پائی تھی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

دھیریا ماہیشوری

فیروز آباد میں مقابلہ دلچسپ اس لیے ہو گیا ہے کیونکہ یادو-مسلم اکثریت والی اس سیٹ سے ملائم کے بھائی شیو پال یادو بھی اپنی پارٹی پرگتی شیل سماجوادی پارٹی کے امیدوار کی شکل میں میدان میں ہیں۔ سابق وزیر اور یو پی کی سیاست کے پہچانے ہوئے چہرے شیوپال یادو کی ان کے بھتیجے سے ٹکر پر سیاسی تجزیہ نگاروں کی بھی گہری نظر ہے۔ خبر گرم ہے کہ علاقے کے مسلم ووٹر شیوپال کے ساتھ ہیں۔ یہ دعویٰ کرتے ہیں شیول کے انتخابی انچارج پپو خان۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ابھی حال ہی میں عظیم بھائی ہمارے ساتھ آئے ہیں اور انھیں مسلمانوں کا بڑا چہرہ مانا جاتا ہے۔ شہر کے اندرونی حصوں میں رہنے والے مسلمانوں میں ان کا اچھا اثر ہے۔‘‘ عظیم بھائی 2017 میں اسمبلی کا انتخاب سماجوادی پارٹی کے ٹکٹ پر لڑ چکے ہیں اور انھیں 60 ہزار سے کچھ زیادہ ووٹ ملے تھے۔ ایسے میں عظیم بھائی کے شیوپال کے ساتھ آنے سے مسلم ووٹوں کی تقسیم ہو سکتی ہے۔

علاوہ ازیں شیوپال کو سماجوادی پارٹی کے سرسا گنج رکن اسمبلی ہری اوم کی بھی حمایت حاصل ہے۔ مقامی لوگ مانتے ہیں کہ شیوپال یادو کو اس لوک سبھا حلقہ کی پانچ میں سے تین اسمبلی حلقوں سرسا گنج، جسرانا اور شکوہ آباد پر فتح حاصل ہوگی۔ ایسے میں 23 اپریل کو ہونے والی ووٹنگ میں یہاں چچا-بھتیجے کا مقابلہ بے حد دلچسپ ہونے والا ہے۔ سماجوادی پارٹی کے ایک کارکن کا کہنا ہے کہ یقینی طور پر شیوپال یادو کو یادو ووٹ بھی ملے گا۔

مایاوتی فیکٹر

یادووں کی اس لڑائی میں اس سیٹ کا نتیجہ حیران کر سکتا ہے اور بی جے پی کے امیدوار چندرسین جادوں بازی مار سکتے ہیں۔ ویسے بھی بی جے پی اس علاقے میں اپنی گرفت بڑھانے میں لگی ہے۔ 2014 میں بی جے پی امیدوار کو یہاں سے 4.2 لاکھ ووٹ ملے تھے۔ اس کے علاوہ گزشتہ دو اسمبلی انتخابات میں فیروز آباد اسمبلی سیٹ بی جے پی کے کھاتے میں ہی جاتی رہی ہے۔ اس کا سبب علاقے میں بنیا اور ویشنو طبقات کی اچھی خاصی موجودگی ہے۔

لیکن بی ایس پی کے کور ووٹر کا سماجوادی پارٹی امیدوار اکشے یادو کے حق میں متحد ہونے سے سب کا کھیل خراب ہو گیا ہے۔ ظاہر ہے اس سے اتحاد کا دعویٰ مضبوط نظر آتا ہے۔ ٹنڈلا میں پولس افسر رہ چکے آر آر سنگھ کہتے ہیں کہ ’’یہاں بی ایس پی کے تقریباً 3 لاکھ ووٹر ہیں اور وہ اسے ہی ووٹ دیتے ہیں، جسے مایاوتی کہتی ہیں۔ اس بار یہ ووٹ اکشے یادو کو جائے گا اور ان کی جیت یقینی ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ ’’2014 میں مایاوتی کے ووٹر نے کم ووٹ ڈالے تھے، لیکن اس بار حال ہی میں اکھلیش کے ساتھ ہوئی مشترکہ ریلی کے بعد ان کے ووٹروں میں جوش ہے اور وہ زیادہ تعداد میں اس بار ووٹ ڈالیں گے۔‘‘

اس جوڑ توڑ سے پیدا ماحول کے سبب اکشے یادو میں بھی ایک اعتماد نظر آتا ہے۔ اتوار کو انھوں نے ٹنڈلا میں روڈ شو کیا جس میں کثیر تعداد میں نیلی ٹوپی پہنے بی ایس پی کارکن نظر آئے۔ فیروز آباد میں 20 اپریل کو ریلی سے پہلے مایاوتی نے سماجوادی پارٹی کے بانی ملائم سنگھ یادو کے ساتھ مین پوری میں ریلی کی تھی۔ اس ریلی سے ان کے حامیوں کو صاف پیغام گیا ہے کہ اس بار دونوں پارٹی ایک ساتھ ہیں۔ مکھن پور گاؤں کے رام بابو یادو کہتے ہیں کہ ’’اب تو نیتا جی نے بھی کہا ہے کہ ہمیں بہن جی کی عزت کرنی ہے۔ وہ بھی اب ہماری لیڈر ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 22 Apr 2019, 8:10 PM