پندرہ روزہ اجلاس: سیرت مصطفی اجلاس کی دوسری نشست میں فتح مکہ کے موضوع پر تفصیلی خطاب
مولانا انیس احمد قاسمی بلگرامی نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ آج ہماری بھی مذہبی ذمے داری ہے کہ ہم اپنے حسن اخلاق کا مظاہرہ کریں، لوگوں سے متانت وسنجیدگی سے پیش آئیں۔

مشرقی دہلی کی عیدگاہ جعفرآباد ویلکم میں پندرہ روزہ اجلاس سیرت مصطفی ﷺ کی دوسری نشست حاجی جاوید احمد کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ اجلاس کا آغاز حافظ محمد حسان کی تلاوت اور حافظ محمد عفان کی نعت سے ہوا۔ پندرہ روزہ اجلاس کے واحد خطیب مفسر قرآن مولانا انیس احمد آزاد قاسمی بلگرامی نقشبندی نے فتح مکہ کے موضوع پر تفصیلی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سن 6 ہجری میں جب اللہ کے آخری رسول ﷺ اپنے چودہ سو صحابہ کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لے جارہے تھے تو مکہ والوں نے آپ کا راستہ روک لیا اور مکہ میں داخل نہیں ہونے دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے حالات کی نامساعدت کے پیش نظر حدیبیہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا اور وہیں مکہ والوں کے ساتھ تاریخ ساز صلح ہوئی۔
ان دفعات میں ایک دفعہ یہ بھی تھی دونوں فریق دس سال تک آپس میں جنگ نہیں کریں گے۔ نیز کوئی بھی قبیلہ جنگی اور دفاعی معاملات میں کسی کا بھی حلیف بن سکتا ہے۔ چنانچہ قبیلہ بنو خزاعہ مسلمانوں کا حلیف بن گیا اور قبیلہ بنو بکر قریش کا حلیف بن گیا۔شعبان 8 ہجری میں قریش کے حلیف بنو بکر نے مسلمانوں کے حلیف بنو خزاعہ پر شب خون مار کر ان کے متعدد افراد کو قتل کر دیا۔ قریش کے حلیف بنو بکر کی جانب سے یہ بد عہدی صادر ہوئی اور انہوں نے معاہدہ توڑ دیا تو اللہ نے اپنے رسول کو ان کی اس بدعہدی سے آگاہ کیا اور بنو خزاعہ کے لوگوں نے بھی رسول اللہ ﷺ کو ان حالات کی خبر دی آپ نے انہیں اطمینان دلایا کہ معاہدہ کی اس خلاف ورزی کا بدلہ ضرور لیا جائے گا چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ میں نہایت رازدارانہ انداز میں فتح مکہ کی تیار یاں شروع کر دیں اور دس رمضان 8 ہجری کو آپ اپنے دس ہزارصحابہ کو لے کر مکہ مکرمہ کی فتح کے لیے روانہ ہوگیے۔
رسول اللہ ﷺ کی حکمت عملی کے نتیجے میں بغیر قتل و غارتگری کے مکہ فتح ہو گیا۔ اللہ کے رسول مکہ کے بالائی حصہ سے حرم میں داخل ہوئے۔ بیت اللہ کی تطہیر فرمائی طواف کیا اور بیت اللہ کے اندر نماز ادا فرمائی۔ صحن کعبہ میں وہ تمام مجرم موجود تھے جنہوں نے کسی وقت رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کو بے پناہ اذیتیں پہنچائی تھیں۔ ظلم ، تشدد، جبرو استبداد اپنی آخری حد کو پہونچ گیا تھا رسول اللہ ﷺ نے ان مجرموں سے پوچھا تھا تم مجھ سے کس چیز کی توقع رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا تھا آپ تو کریم ابن کریم ہیں ، تب رسول اللہ ﷺ نے ان مجرموں سے کہا تھا میں تم سے وہی کہو ں گا جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا۔ آج تم پر کوئی سرزنش نہیں کی جائیگی جاؤ تم سب آزاد ہو۔
رسول اللہ ﷺ کی اس کرم فرمائی کے نتیجے میں وہ سب مسلمان ہو گئے اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔ عثمان بن طلحہ کے پاس بیت اللہ کی چابی رہتی تھی اس نے ایک وقت رسول اللہ ﷺ کو بیت اللہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا اور نبی نے اس سے کہا تھا کہ عثمان، اس وقت کیا ہوگا جب بیت اللہ کی چابی میرے ہاتھ میں آئے گی۔ چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر عثمان بن طلحہ سے بیت اللہ کی چابی آپ نے لی ۔ اس کے بعد پھر آپ نے وہ چابی عثمان بن طلحہ کو یہ کہہ کر واپس کردی اب یہ چابی ہمیشہ تمہارے گھرانے میں رہے گی۔ مولانا بلگرامی نے بتایا کہ ساڑھے چودہ سو سال سے بیت اللہ کی چابی عثمان بن طلحہ کے گھرانے میں منتقل ہوتی چلی آرہی ہے اور آج بھی اسی گھرانے میں بیت اللہ کی چابی رہتی ہے۔
مولانا انیس بلگرامی نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ آج ہماری بھی مذہبی ذمے داری ہے کہ ہم اپنے حسن اخلاق کا مظاہرہ کریں، لوگوں سے متانت وسنجیدگی سے پیش آئیں۔ صبر و تحمل سے کام لیں۔ مولانابلگرامی نے کہا آج کے دور میں لوگوں میں قوت برداشت کا بے حد فقدان ہے جس کے نتیجے میں معمولی معمولی باتوں پر قتل ہوجاتا ہے۔ اس لیے خاص طور پر ہمارے نوجوانوں کو اپنے اندر صبر اور قوت برداشت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔اجلاس میں حاجی محمد ناصر، حاجی محمد سرور، محمد آصف، قاری محمد حامد مدنی، قاری احمد مدنی، حافظ محمد کلیم، محمد سلمان آزاد کے علاوہ بڑی تعدادا میں مرد و خواتین نے شرکت کی ۔ دیر رات گیے مولانا آزاد بلگرامی کی دعا پر اجلاس اختتام پذیر ہوا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔