یومِ وفات پر خاص: مولانا آزاد اور ہندوستانی مسلمان... ڈاکٹر آفتاب احمد منیری

ہم ماضی قریب میں پیش آئے سیاسی واقعات کا تنقیدی مطالعہ کریں اور اپنے ذہنی و فکری تحفظات سے اوپر اٹھ کر ان کا تجزیہ کریں تو خود کو یہ کہنے پر مجبور پائیں گے کہ مذہبی بنیاد پر اس ملک کی تقسیم غلط تھی۔

مولانا آزاد، تصویر آئی اے این ایس
مولانا آزاد، تصویر آئی اے این ایس
user

آفتاب احمد منیری

امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کے تصور قومیت کے سیاق میں اب تک جتنی بھی گفتگو کی گئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مولانا آزاد ہندوستان کی تاریخ اور یہاں کی تہذیبی رنگا رنگی سے بے نیاز ہو کر علیحدہ قومیت کے تصور کو یہاں کے مسلمانوں کے حق میں ہلاکت خیز سمجھتے تھے۔ ان کا مسلم لیگ سے نظریاتی اختلاف اور انڈین نیشنل کانگریس سے عملی وابستگی اس کا بین ثبوت ہے کہ وہ ہندوستان کی متحدہ قومیت کے اس مہتم بالشان تصور میں یقین رکھتے تھے جسے شرمندہ تعبیر کرنے میں یہاں کی دو عظیم قوموں نے قابل فخر کردار ادا کیا تھا۔ اس مشترکہ تہذیب کی آبیاری میں اردو زبان اور اس سے وابستہ شاعروں اور ادیبوں نے جس ذوق و شوق کے ساتھ اپنا عملی تعاون پیش کیا تھا اس سے مولانا آزاد کا تصور قومیت معنوی اعتبار سے مستند قرار پاتا ہے۔ پنڈت برج نارائن چکبست کے یہ اشعار اس سلسلے میں ہماری بہترین رہنمائی کرتے نظر آتے ہیں:

اے خاک ہند تیری عظمت میں کیا گماں ہے

دریائے فیض قدرت تیرے لیے رواں ہے

تیرے جبیں سے نور حسن ازل عیاں ہے

اللہ رے زیب و زینت کیا اوج عز و شاں ہے

اگر ہم ماضی قریب میں پیش آئے سیاسی واقعات کا تنقیدی مطالعہ کریں اور اپنے ذہنی و فکری تحفظات سے اوپر اٹھ کر ان واقعات کا تجزیہ کریں تو ہم خود کو یہ کہنے پر مجبور پائیں گے کہ اس ملک کی مذہب کی بنیاد پر تقسیم غلط تھی۔ یہ ایک ایسا جذباتی اور غیر منطقی فیصلہ تھا جس کی قیمت آج تک سرحد کے دونوں جانب آباد کروڑوں انسان چکا رہے ہیں۔ امام الہند مولانا آزاد کی دور اندیش نظروں نے بہت پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ اس عظیم ملک کی نرالی تہذیب اور اس کے سماجی تانے بانے کی صورت گری مں اپنا بیش بہا کردار ادا کرنے والے مسلمانوں کے لیے علیحدگی کی راہ بہر صورت خسارہ کا سودا ہوگی۔ لیکن ان کی تمام تر کاوشوں کے باوجود ملک میں تیزی کے ساتھ پیر پھیلا رہی فرقہ پرستی نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ ہندو مہاسبھا اور مسلم لیگ کی مذموم کوششوں کے نتیجے میں وطن عزیز ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے وہ لاکھوں کلمہ گو فرزند اجنبی بنا دیئے گئے جن کے بزرگوں کی بے شمار قربانیوں کے نتیجہ میں ہند کے افق پر آزادی کا سورج طلوع ہوا تھا۔


اس المناک سانحہ نے مولانا آزاد کو سخت ذہنی اذیت پہنچائی۔ باوجود اس کے ان کے پائے استقلال میں لرزش نہیں آئی اور انھوں نے ملک کے مسلمانوں کو اس حادثہ کے منفی اثرات سے باہر نکالنے کے لیے جامع مسجد کی سیڑھیوں سے قوم کے نام اپنے تاریخی خطاب میں جو باتیں کہیں وہ آبِ زر سے تحریر کیے جانے لائق ہے۔ ان کے اس ولولہ انگیز خطاب نے مقناطیسی اثر دکھایا اور وہ ہزاروں افراد جو اپنے مستقبل کو لے کر تذبذب کی کیفیت میں مبتلا تھے، وہ اس ذہنی کشمکش سے باہر نکل کر مولانا آزاد کے ہم نوا بن گئے۔ 24 اکتوبر 1947 کی اس تقریر میں مولانا نے جو بیش قیمتی باتیں کہیں اس کے لفظ لفظ سے حب الوطنی اور غیرتِ قومی کی شعاعیں پھوٹتی ہیں۔ اس تاریخی خطاب کے چند اقتباسات حسب ذیل ہیں:

’’میں نے ہمیشہ کہا ہے اور آج پھر کہتا ہوں کہ تذبذب کا راستہ چھوڑ دو۔ شک سے ہاتھ اٹھا لو اور بے عملی ترک کر دو...۔

...یہ تین دھار کا انوکھا خنجر لوہے کی اس دو دھاری تلوار سے زیادہ کاری ہے جس کے گھاؤ کی کہانیاں میں نے تمھارے نوجوانوں کی زبانی سنی ہے۔

یہ فرار کی زندگی جو تم نے ہجرت کے مقدس نام پر اختیار کی ہے، اس پر غور کرو۔ تمھیں محسوس ہوگا کہ یہ غلط ہے۔ اپنے دلوں کو مضبوط بناؤ اور اپنے دماغوں کو سوچنے کی عادت ڈالو اور پھر دیکھو کہ تمھارے یہ فیصلے کتنے عاجلانہ ہیں۔ آخر کہاں جا رہے ہو، اور کیوں جا رہے ہو؟

یہ دیکھو... شاہ جہانی مسجد کے مینار تم سے جھک کر سوال کرتے ہیں۔ تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گم کر دیا ہے؟ ابھی کل کی بات ہے کہ یہیں جمنا کے کنارے تمھارے قافلوں نے وضو کیا تھا اور آج تم ہو کہ یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہو۔ حالانکہ دہلی تمھارے خون سے سینچی گئی ہے۔‘‘


اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ مولانا آزاد کی یہ تقریر ان کے تصور قومیت کا شاہکار ہے۔ ان کے اس مسحور کن خطاب نے ہزاروں مسلمانوں کے دل کی دنیا بدل دی اور ان کی ایک عظیم تعداد نے جناح کے نظریہ پاکستان کو رد کر دیا۔ لیکن ایک سوال اب بھی ذہن و دل کو پریشان کرتا ہے اور اس سوال کا تجزیہ اگر آج کے پر آشوب سیاسی ماحول کے سیاق میں کریں تو اس سوال کی معنویت اور بڑھ جاتی ہے۔ اگر قوم کے تمام افراد نے مولانا آزاد کے پیش کردہ تصورِ قومیت کے فلسفہ کو سمجھنے کی کوشش کی ہوتی اور ان کے دانشورانہ مشوروں کو دل سے قبول کیا ہوتا تو شاید اس عظیم قوم کا شیرازہ منتشر نہ ہوتا اور آج اپنے ہی ملک کے اندر وہ سیاسی طور پر اس قدر بے حیثیت نہ ہوتی۔

(مضمون نگار شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں استاذ ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */