متھرا شاہی عیدگاہ سروے معاملہ: مسلم فریق ہائی کورٹ کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں کرے گا چیلنج

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان قاسم رسول الیاس نے شاہی مسجد عیدگاہ کمیٹی کے ذریعہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا استقبال کیا۔

متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد
متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد
user

قومی آوازبیورو

الٰہ آباد ہائی کورٹ نے آج ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے متھرا واقع شاہی عیدگاہ مسجد احاطہ کا سروے کرائے جانے کو منظوری دے دی۔ اب مسلم فریق نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ شاہی مسجد عیدگاہ انتظامیہ کمیٹی کے سکریٹری اور وکیل تنویر احمد نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی-رائٹرس کو بتایا کہ کمیٹی ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج پیش کرے گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس فیصلے کے خلاف جو بھی قانونی طریقہ ممکن ہوگا، وہ اختیار کیا جائے گا۔

مسلم فریق کے ذریعہ سپریم کورٹ کا رخ کرنے کے فیصلہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان قاسم رسول الیاس ک ابیان بھی سامنے آ گیا ہے۔ انھوں نے شاہی مسجد عیدگاہ کمیٹی کے فیصلے کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ ’’مسلم پرسنل لاء بورڈ کی قانونی کمیٹی شاہی مسجد عیدگاہ کمیٹی کو ہر قانونی مدد فراہم کرے گی۔‘‘ قاسم رسول الیاس کا کہنا ہے کہ 1991 میں بابری مسجد تنازعہ کے دوران مرکزی حکومت نے ایسے سبھی تنازعات سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پانے کے مقصد سے عبادت گاہوں کے متعلق ایک قانون پاس کیا تھا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ عبادت گاہوں کی حالت ٹھیک ویسی ہی رہے گی جیسی کہ 1947 میں تھی۔ امید تھی کہ اس کے بعد کوئی ٹکراؤ پیدا نہیں ہوگا، لیکن جن عناصر کو ملک کے امن و امان میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور جو ہندو-مسلم منافرت پیدا کر رہے ہیں، وہ ایسا کر کے اپنا سیاسی مفاد پورا کرنا چاہتے ہیں۔


واضح رہے کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے جمعرات کو متھرا میں کرشن جنم بھومی مندر سے سٹے شاہی عیدگاہ احاطہ کی عدالت کی نگرانی میں سروے کرانے کے مطالبہ پر مبنی عرضی منظور کر لی۔ عدالت نے اس سروے کی نگرانی کے لیے ایک ایڈووکیٹ کمشنر کی تقرری پر اتفاق ظاہر کیا ہے۔ شاہی مسجد احاطہ کے بارے میں عرضی دہندگان کا دعویٰ ہے کہ ایسے اشارے ملے ہیں جو بتاتے ہیں کہ یہ کبھی ایک ہندو مندر تھا۔ جسٹس مینک کمار جین کی عدالت نے کہا کہ 18 دسمبر کو آئندہ سماعت میں سروے کے طور طریقوں پر بحث کی جائے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔