طالبہ کی خودسوزی پر اوڈیشہ اسمبلی کے باہر زبردست احتجاج، حکومت پر انصاف میں تاخیر کا الزام

بالاسور کی طالبہ کی خودسوزی پر اوڈیشہ اسمبلی کے باہر زبردست احتجاج، مظاہرین نے انصاف میں تاخیر پر ناراضگی ظاہر کی، پولیس نے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آواز بیورو

بالاسور میں ایک 22 سالہ طالبہ کی خودسوزی کے واقعے کے بعد اوڈیشہ بھر میں غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور احتجاج اب ریاستی دارالحکومت بھونیشور تک پہنچ چکا ہے۔ بدھ 16 جولائی کو اوڈیشہ اسمبلی کے باہر زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، جہاں طلبہ تنظیموں، سماجی کارکنوں اور شہریوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

احتجاج اس طالبہ کے انصاف کے لیے کیا جا رہا تھا، جو فقیر موہن کالج، بالاسور میں انٹیگریٹڈ بی ایڈ کورس کی طالبہ تھی۔ اس نے اپنے ایک پروفیسر پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا تھا۔ شکایت کے باوجود کارروائی نہ ہونے پر اس نے 13 جولائی کو خود کو کالج کے باہر آگ لگا لی۔ وہ 90 فیصد جھلس گئی تھی اور پیر کی رات بھونیشور کے ایمس اسپتال میں دم توڑ گئی۔

احتجاجی مظاہرے کے دوران مشتعل ہجوم نے پولیس بیریکیڈنگ کو دھکیلنے کی کوشش کی، جس پر پولیس نے واٹر کینن اور آنسو گیس کا استعمال کرتے ہوئے بھیڑ کو منتشر کیا۔ مظاہرین نے نعرے بازی کرتے ہوئے حکومت پر انصاف میں تاخیر، عدم سنجیدگی اور تعلیمی اداروں میں خواتین کے تحفظ میں ناکامی کے الزامات لگائے۔

مظاہرین نے کہا کہ محض مالی امداد سے انصاف نہیں ہو سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبہ نے 30 جون کو کالج کی داخلی شکایتی کمیٹی کو تحریری شکایت دی تھی، مگر کالج انتظامیہ نے اسے نظرانداز کیا۔ وہ چاہتے ہیں کہ ذمہ داروں کو نہ صرف سزا دی جائے بلکہ نظام میں اصلاحات بھی کی جائیں تاکہ آئندہ ایسا واقعہ نہ ہو۔


حکومت کی جانب سے وزیر اعلیٰ موہن چرن مانجھی نے واقعے پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے 20 لاکھ روپے کی مالی امداد اور اعلیٰ سطحی تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔

پولیس نے معاملے میں کارروائی کرتے ہوئے واقعے کے دن ہی متاثرہ پروفیسر کو گرفتار کر لیا تھا۔ اس پر بی این ایس کی مختلف دفعات کے تحت جنسی ہراسانی، خودکشی پر اُکسانے اور مجرمانہ دھمکی جیسے الزامات لگے ہیں۔ بعد ازاں کالج کے معطل پرنسپل کو بھی پیر کے روز گرفتار کر لیا گیا، جن پر طالبہ کی شکایت نظرانداز کرنے اور خودکشی میں بالواسطہ کردار ادا کرنے کا الزام ہے۔

اگرچہ مرکزی ملزم کی گرفتاری ہو چکی ہے، مگر مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی عوامی دباؤ کے بعد کی گئی، اور یہ کہ جب تک نظامی ناکامیوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا، انصاف مکمل نہیں ہوگا۔

اپوزیشن جماعتیں پہلے ہی 17 جولائی کو ریاست گیر بند کا اعلان کر چکی ہیں، جس میں اس واقعے کو حکومت کے خلاف احتجاج کا مرکز بنایا جائے گا۔ ریاستی حکومت پر بڑھتا ہوا عوامی دباؤ ظاہر کرتا ہے کہ یہ معاملہ اب صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ وسیع تر سماجی بے چینی کی علامت بن چکا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔