شہید مولانا پیر علی خاں، جنہوں نے انگریزوں سے کہا- ’تم مجھے پھانسی دے سکتے ہو لیکن ہمارے اصولوں کو نہیں مار سکتے‘

سزائے موت دینے سے قبل ولیم ٹیلر نے مولانا پیر علی خاں کے ضمیر کا سودا کرنے کی آخری مرتبہ کوشش کی مگر پھانسی کا پھندہ دیکھتے ہوئے بھی ان کی زبان نے جنبش نہ کھائی

مولانا پیر علی کے یوم شہادت کے موقع پر خصوصی پیشکش
مولانا پیر علی کے یوم شہادت کے موقع پر خصوصی پیشکش
user

شاہد صدیقی علیگ

1857ء کی انقلابی مہم میں مدارس کے جن علماء اور فارغین نے برطانوی سامراجیت کے خلاف نعرہ حریت بلند کیا تھا۔ ان میں مولانا پیر علی خاں بھی شامل تھے جو 1820ء میں مہر علی خاں ساکن محمد پور ضلع اعظم گڑ ھ کے گھرپیدا ہوئے لیکن کم عمری میں ہی تلاش علم کے لیے گھر سے نکل کر پٹنہ پہنچے، جہاں ان کی شہر کے سرکردہ ثروت مند میر عبداللہ نے اپنی اولاد کی طرح پرورش کی۔ برطانوی عملداری کے ظلم وستم اور دورخی پالیسی کو دیکھ کر پیر علی خاں کے دل میں پھپھولے جلنے لگے تھے جو وقت کی رفتار کے ساتھ آتش فشاں میں تبدیل ہو گئے۔

مولانا پیر علی خاں نے معاش زندگی کے لیے پٹنہ میں ایک چھوٹا سا کتب خانہ کھول لیا جو جلد ہی انقلابی مرکز میں تبدیل ہو گیا، جہاں کتابیں تو کم فروخت ہوتی تھیں مگر آزادی کے خواب زیادہ دیکھے جاتے تھے، جن کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے پیر علی خاں کے ہم خیال لوگوں نے ایک انقلابی تنظیم تشکیل دی، جس کی مالی اعانت لطف علی نے کی۔ تنظیم کی خفیہ میٹنگیں رات میں منعقد ہوتی تھیں، لہٰذا اس پر نگاہ رکھنا مشکل کام تھا۔


انقلابیوں نے جلد ہی ملک کے دیگر مجاہدین اور دانا پور چھاؤنی کے سپاہیوں سے ربط وضبط قائم کر لیا۔ پیر علی خاں نے دیسی فوجی افسر مولوی مہدی کو اسلحے کی خریداری میں مدد کرنے پر آمادہ کیا۔ پٹنہ کے آمرانہ کمشنر ولیم ٹیلر کو اس کے جاسوسوں سے شہر کی انقلابی کارروائیوں کی خبر مسلسل مل رہی تھی، چنانچہ 12 جون کو حکام نے سکھوں کو بغاوت پر آمادہ کرنے کے الزام میں نجیب قطب الدین کو محروس کر لیا گیا۔ 18 جون کو کمشنر ٹیلر نے حیلے سے تین محرک علماء کرام مولوی شا ن محمد حسین، احمد اللہ اور واعظ الحق کو کیپٹن ریٹرے کی نگرانی میں سرکٹ ہاؤس میں نظر بند کر دیا۔

مولوی مہدی اور شہر کے مجسٹریٹ کو 19 جون کو حراست میں لیا گیا۔ 20 جون کو ایک سال کے لیے مارشل لا نافذ کر دیا۔ عوام سے اسلحہ جمع کرانے کے ساتھ ساتھ داناپور کی چھاؤنی میں عوام کی آمد ورفت پر بھی پابندی لگا دی گئی، سخت پابندیوں کے باعث مجاہدین کی خفیہ میٹنگیں بند ہو گئیں، مگر انتظامیہ کی دار و گیر جاری رہی۔


مؤرخہ 23 جون ترہت کے پولیس جمع دار وارث علی کی گرفتاری عمل میں آئی، اسی روز قطب الدین نجیب کو شام چھ بجے پھانسی دے دی گئی۔ کمشنر کے جابرانہ اقدام سے پورے شہر میں سکتہ طاری ہو گیا لیکن انقلابیوں کو اپنی جان سے زیادہ عزیز مادر ہند کی آزادی تھی لہٰذا انہوں نے بھی برطانوی نظام کی بیخ کنی کے لیے عزم مصمم کر لیا۔

بجہت مولانا پیرعلی خاں کی رہنمائی میں مجاہدین نے 3 جولائی 1857ء کو شام آٹھ بجے گلزار باغ میں واقع کمپنی کی انتظامی عمارت کا محاصرہ کر لیا۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی ٹیلر نے کپتان ریڑے کی کمان میں 150 سکھوں بھیجا۔ تصادم میں ڈاکٹر لائل جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ کمشنر نے انتقامی آگ میں ساکنین پر جبر و استبداد کے پہاڑ توڑ دیے۔ 43 انقلابی بشمول پیر علی، رئیس لطف علی اور خادم شیخ گھسیٹا کو گرفتار کر لیا گیا۔ اسی بیچ 6 جولائی کو جمع دار وارث علی کوسولی پہ لٹکا دیا گیا۔ بہر کیف گرفتار انقلابیوں کی سماعت عدالت کے بجائے 7 جولائی کو ٹیلر اور مجسٹریٹ لوئس پر مشتمل کمیشن نے شروع کی۔ جس نے بغاوت کے جرم میں پیر علی خاں کے علاوہ 18 دیگر کو سزائے موت، پانچ کو عمر قید، دو کو چودہ سال کی سزا، تیر ہ کو دس سال قید با مشقت سنائی۔


سزائے موت پانے والوں کو فوراً پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ سزائے موت دینے سے قبل ولیم ٹیلر نے مولانا پیر علی خاں کے ضمیر کا سودا کرنے کی آخری مرتبہ کوشش کی مگر پھانسی کا پھندہ دیکھتے ہوئے بھی ان کی زبان نے جنبش نہ کھائی لیکن جب مولانا پیر علی خاں کی آنکھیں اپنے فرزند کے نام سے ڈبڈا گئی تو ٹیلر نے فوراً ان کے جذبات کا فائدہ اٹھا کر کہ ان سے کہا کہ تم اب بھی بچ سکتے ہو، اگر سازش کے دوسرے لوگوں کے نام بتا دو۔ جسے سن کر نے پیر علی خاں نے بڑی دلیری اور صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹیلر کو جواب دیا۔

”زندگی میں ایسے موقع بھی آتے ہیں جب جان بچانے کی تمنا ہوتی ہے لیکن کچھ ایسے لمحے بھی ہوتے ہیں جن میں جان قربان کرنا ہی سب سے بڑی نیکی اور خواہش ہوتی ہے، یہ لمحہ ان ہی میں سے ایک ہے کہ جب موت کو گلے لگانا ابدی زندگی پانا ہے۔ تم مجھے پھانسی دے سکتے ہو لیکن ہمارے اصولوں کو نہیں مار سکتے۔ میں اگر مر بھی گیا تو میرے خون سے ہزاروں ایسے پیدا ہوں گے جو تمہاری حکومت کو برباد کر دیں گے۔“

مگر افسوسناک پہلو ہے کہ ہندوستان کی جنگ آزادی کے عظیم ہیرو مولانا پیر علی خاں کے ساتھ تاریخ ہند نے تو انصاف کیا ہی نہیں مگر عوام نے بھی ان کی قربانی کو اس طرح سنجو کر نہ رکھا جس کے وہ مستحق تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 07 Jul 2022, 10:40 PM