پولیس اسٹیشن میں ہونے والی شادیاں اب قابل قبول نہیں، الٰہ آباد ہائی کورٹ کا بڑا فیصلہ

الٰہ آباد ہائی کورٹ نے ایک معاملے میں سماعت کرتے ہوئے کہا کہ رسوم و رواج کے ساتھ انجام پائی شادیوں کو ہی قانون کی نظر میں جائز شادی مانا جائے گا۔

<div class="paragraphs"><p>الہ آباد ہائی کورٹ، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

الہ آباد ہائی کورٹ، تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

شادی کے لیے آج کل کئی آسان راستے اختیار کیے جاتے ہیں۔ ایک آسان راستہ ہے پولیس اسٹیشن میں شادی۔ لیکن الٰہ آباد ہائی کورٹ کا ایک بڑا فیصلہ سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پولیس اسٹیشنوں میں ہوئی شادی کو قابل قبول قرار نہیں دیا جا سکتا۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے ایک معاملے پر سماعت کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔

الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سنجے کمار سنگھ کی سنگل بنچ نے وارانسی کی اسمرتی سنگھ کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے یہ بیان دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ ’سپت پدی‘ ہندو شادی کا ایک لازم عنصر ہے۔ رسوم و رواج کے ساتھ انجام پائی شادی کو ہی قانون کی نظر میں جائز شادی تصور کیا جائے گا۔ اگر ویدک رسم سے شادی نہیں کرائی گئی ہے تو اس طرح کی شادیاں قانون کی نظر میں ناقابل قبول رہیں گی۔


عدالت نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ ہندو شادی کے ایسے طریقے جس میں سات پھیرے یعنی کہ ’سپت پدی‘ کو شامل نہیں کیا جاتا ہے، وہ قانوناً جائز نہیں ہوگا۔ اتر پردیش میں پولیس اسٹیشن میں کرائی گئی شادیاں اس دائرے میں آتی ہیں۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کی سول اور فیملی تنازعات کے معاملوں کی ماہر وکیل ابھیلاشا پریہار کا کہنا ہے کہ کئی بار لڑکے لڑکیوں کی محبت سے جڑے معاملے پولیس اسٹیشن میں پہنچنے کے بعد پولیس اہلکار تھانے میں ہی لڑکے-لڑکیوں کی شادیاں کرا دیتے ہیں۔ اس طرح کے معاملوں میں تھانے میں بنے مندر میں دیوی-دیوتاؤں کو گواہ مان کر لڑکے سے لڑکی کی مانگ میں سندور لگوا دیتے ہیں اور ایک دوسرے کو مالا پہنوا دیتے ہیں۔ اس طرح کی شادیوں میں نہ تو پھیرے ہوتے ہیں، نہ ہی سپت پدی ہوتی ہے۔ ایسے میں تھانے میں ہونے والی شادیوں کے جواز پر سوال اٹھیں گے اور انھیں قانونی طور سے قابل قبول نہیں مانا جائے گا۔

قابل ذکر ہے کہ اسمرتی سنگھ عرف موسمی سنگھ نے اپنے شوہر ستیم سنگھ سمیت سبھی سسرال والوں پر طلاق دیے بغیر دوسری شادی کرنے کا الزام لگاتے ہوئے وارانسی ضلع کورٹ میں کیس داخل کیا تھا۔ اس پر عدالت نے عرضی دہندہ کو سمن جاری کر طلب کیا تھا۔ کیس اور سمن کو ہائی کورٹ میں چیلنج پیش کیا گیا۔ اس میں عرضی دہندہ کا کہنا تھا کہ اس کی شادی 5 جون 2017 کو ستیم سنگھ کے ساتھ ہوئی تھی، لیکن تنازعہ کے سبب عرضی دہندہ نے شوہر اور سسرال والوں کے خلاف جہیز سے متعلق مظالم اور مار پیٹ وغیرہ کا مقدمہ درج کرایا گیا تھا۔


اس کیس میں یہ بھی الزام لگایا گیا کہ سسرال والوں نے موسمی سنگھ کو مار پیٹ کر گھر سے نکال دیا ہے۔ پولیس نے شوہر و سسرال والوں کے خلاف عدالت میں چارج شیٹ داخل کی ہے۔ اسی درمیان شوہر اور سسرال والوں کی طرف سے پولیس افسروں کو ایک شکایتی خط دے کر کہا گیا کہ عرضی دہندہ نے پہلے شوہر سے طلاق لیے بغیر دوسری شادی کر لی ہے۔ اس شکایت کی سی او صدر مرزاپور نے جانچ کی اور اسے جھوٹا قرار دیتے ہوئے رپورٹ لگا دی۔ اس کے بعد عرضی دہندہ کے شوہر نے جلع کورٹ وارانسی میں کیس داخل کیا۔ عدالت نے اس معاملے میں عرضی کو سمن جاری کیا تھا۔ جسے چیلنج پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ عرضی دہندہ کے ذریعہ دوسری شادی کرنے کا الزام سراسر غلط ہے۔

ہائی کورٹ میں داخل اس عرضی میں کہا گیا کہ عرضی دہندہ کی طرف سے درج کرائے گئے مقدمے کا بدلہ لینے کی نیت سے یہ الزام لگایا گیا ہے۔ اس کیس میں شادی تقریب منعقد ہونے کا کوئی ثبوت نہیں دیا گیا ہے۔ نہ ہی سپت پدی کا کوئی ثبوت ہے جو کہ ہندوؤں میں شادی کی لازمی شرط ہے۔ ثبوت کے طور پر صرف تصویر پیش کیا گیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ عرضی دہندہ کے خلاف درج شکایت میں شادی تقریب منعقد ہونے کا کوئی ثبوت نہیں دیا گیا ہے، جبکہ جائز شادی کے لیے شادی تقریب کا سبھی رسوم و رواج کے ساتھ منعقد ہونا ضروری ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔