منوج کمار: چاکلیٹی ہیرو سے ’بھارت کمار‘ تک ایک حب الوطن فنکار کی کہانی

منوج کمار کا فلمی سفر جدوجہد، حب الوطنی اور بے مثال اداکاری سے بھرپور تھا۔ ایبٹ آباد میں پیدا ہو کر بالی ووڈ میں ’بھارت کمار‘ بننے والا یہ فنکار، اردو مکالموں، منفرد کہانیوں اور قومی جذبے کی پہچان بنا

<div class="paragraphs"><p>منوج کمار</p></div>

منوج کمار

user

یو این آئی

منوج کمار، جنہیں دنیا ’بھارت کمار‘ کے نام سے جانتی ہے، نہ صرف بالی ووڈ کے چاکلیٹی ہیرو رہے بلکہ انہوں نے فلمی پردے پر حب الوطنی کو نئی زبان دی۔ ان کی پیدائش 24 جولائی 1937 کو ایبٹ آباد (اب پاکستان) میں ہوئی۔ تقسیم کے بعد ان کا خاندان راجستھان کے ہنومان گڑھ میں مہاجر کیمپوں میں مقیم ہوا، جہاں زندگی کی سختیوں نے ان کے مزاج میں حوصلہ، شرافت اور ہمدردی کی بنیاد رکھی۔

ان کا اصل نام ہری کرشن گوسوامی تھا لیکن فلمی دنیا میں وہ منوج کمار کے نام سے پہچانے گئے۔ ان کے والد پنڈت ہربنس لال گوسوامی اردو اور فارسی کے ماہر شاعر تھے، جن کی ادبی وراثت منوج کمار کی فنکارانہ تربیت میں واضح جھلکتی ہے۔ وہ نہ صرف اداکار تھے بلکہ ہدایت کار، اسکرپٹ رائٹر اور مکالمہ نگار بھی تھے اور سب سے بڑھ کر ایک شاندار انسان تھے۔

1957 سے 1962 کا زمانہ منوج کمار کے لیے آزمائشوں بھرا تھا۔ فلم ’فیشن‘ سے آغاز کیا لیکن عمر رسیدہ کردار ملا۔ پھر کئی سال معمولی رولز کرتے رہے، جن میں فلمیں جیسے ’ریشمی رومال‘ اور ’کانچ کی گڑیا‘ شامل ہیں لیکن کامیابی دور ہی رہی۔ مگر انہوں نے ہار نہیں مانی۔

آخرکار 1962 میں ’ہریالی اور راستہ‘ اور ’شادی‘ جیسی فلموں نے انہیں نیا پہچان دی اور وہ چاکلیٹی ہیرو کہلائے لیکن وہ صرف رومانس یا گلیمر کے دیوانے نہ تھے، ان کے دل میں قوم کے لیے کچھ کرنے کی تڑپ تھی۔


فلم ’شہید‘ میں منوج کمار نے انقلابی بھگت سنگھ کا کردار اس انداز میں ادا کیا کہ ناظرین اور ناقدین دونوں نے داد دی۔ اس فلم سے متاثر ہو کر اس وقت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری نے ان سے ’جے جوان جے کسان‘ کے نعرے پر فلم بنانے کی گزارش کی۔ منوج کمار نے اسے چیلنج کے طور پر لیا اور دو سال کی محنت سے ’اپکار‘ پیش کی، جو ایک ایسی فلم تھی جو آج بھی کلاسک مانی جاتی ہے۔

یہی فلم ان کے کیریئر کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی، جس میں ان کا کردار ’بھارت‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کے بعد وہ منوج کمار نہیں بلکہ بھارت کمار کہلائے اور ان کا سنیما حب الوطنی کا ترجمان بن گیا۔

منوج کمار کی فلمیں صرف تفریح نہیں، پیغام بھی تھیں۔ ’پورب پچھم‘، ’روٹی کپڑا اور مکان‘، ’کرانتی‘ اور ’دیش واسی‘ جیسی فلمیں قومی شعور جگانے والی تھیں۔ انہوں نے ہر فلم میں بھارت کے عام انسان کی کہانی سنائی۔ صرف ’شور‘ جیسی چند فلموں میں انہوں نے تھوڑا مختلف تجربہ کیا لیکن زیادہ تر ان کے کام میں قوم پرستی اور سماجی شعور غالب رہا۔

منوج کمار کی زندگی کا ایک نمایاں پہلو ان کی انسان دوستی اور انکساری تھی۔ ان کے دوست دھرمیندر جب فلمی دنیا چھوڑنے کے قریب تھے، تب منوج کمار نے انہیں حوصلہ دیا اور روکا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو شعلے، آنکھیں اور میرا گاؤں میرا دیش جیسی فلموں سے ہم محروم رہ جاتے۔


ان کی ذاتی زندگی کا ایک دلخراش پہلو ان کی بہن کی وفات ہے، جو مہاجر کیمپ میں غذائی قلت کے باعث بیمار ہوکر دنیا سے چلی گئی۔ اس واقعے نے منوج کمار کو بدل دیا۔ ان کے والد نے انہیں سمجھایا کہ تشدد کا جواب تشدد نہیں، محبت ہے۔ انہوں نے اس بات کو زندگی بھر پلے باندھ لیا اور کبھی بھی اونچی آواز میں بات تک نہیں کی۔

منوج کمار نے اپنی نسل کے سب سے بڑے اداکاروں کے ساتھ کام کیا۔ ’آدمی‘، ’نیل کمل‘، ’میرا نام جوکر‘ جیسی فلموں میں انہوں نے دلیپ کمار، راج کپور، راجندر کمار جیسے بڑے فنکاروں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر اداکاری کی۔ ان فلموں میں ان کی موجودگی فلم کی جان بن گئی۔

منوج کمار نے فلمی دنیا سے بتدریج کنارہ کشی اختیار کی، مگر ان کا اثر ختم نہ ہوا۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت نے انہیں 1992 میں ’پدم شری‘ اور 2015 میں ہندوستانی سنیما کا سب سے بڑا ’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘ فراہم کیا۔

منوج کمار 4 اپریل 2025 کو 87 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ان کے کام اور کردار ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ وہ ایک فنکار ہی نہیں، ایک نظریہ، ایک مثال، اور ایک تحریک تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔