منی پور: صحافیوں کی بس روکنے سے متعلق معاملہ کی ہوگی جانچ، 2 رکنی کمیٹی تشکیل
دفاعی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر سلامتی دستوں کو پیشگی اطلاع ہوتی تو دیگر گاڑیوں کی طرح اس بس کو بھی وہ نہیں روکتے۔ بس روکنے یا صحافیوں کو مہوتسو میں شامل ہونے سے روکنے کی کوئی منشا نہیں تھی۔

منی پور میں شیروئی للی مہوتسو میں جا رہے صحافیوں کو روکنے کا واقعہ طول پکڑتا جا رہا ہے۔ سماجی تنظیمیں، سیاسی پارٹیاں اور دیگر تنظیمیں بھی اس معاملے میں کود پڑی ہیں اور جم کر احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ صحافیوں کے مطالبہ پر اس معاملے کی جانچ کے لیے محکمہ داخلہ نے 2 رکنی کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے، جسے 15 دنوں میں اپنی رپورٹ جمع کرنی ہے۔ یہ کمیٹی صحافیوں کو شیروئی للی سیاحتی مہوتسو میں لے جا رہی بس سے ریاست کا نام ڈھکنے کے الزامات کی جانچ کرے گی۔
محکمہ داخلہ کے ذریعہ جاری حکم میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی 20 مئی کو گوالتابی چیک پوسٹ کے پاس منی پور شیروئی مہوتسو کی کوریج کے لیے میڈیا اہلکاروں کو لے جا رہی منی پور اسٹیٹ ٹرانسپورٹ کی بس اور سلامتی دستوں سے جڑے حالات اور حقائق کی جانچ کرے گی۔ کمیٹی یہ بھی دیکھے گی کہ کہیں کوئی تساہلی تو نہیں ہوئی ہے اور مستقبل میں اس طرح کے واقعات پھر سے دہرائے نہ جائیں اس کے لیے کیا طریقے اپنائے جا سکتے ہیں، اس پر غور کرے گی۔ اس کمیٹی میں داخلہ کمشنر این اشوک کمار اور سکریٹری ٹی کرن کمار سنگھ شامل ہیں۔
اس درمیان دفاعی ذرائع سے جو خبر سامنے آئی ہے اس کے مطابق یہ واقعہ پوری طرح سے بات چیت کی کمی کے سبب پیدا ہوئی غلط فہمی کی وجہ سے ہوا۔ کیونکہ جو بس صحافیوں کو لے کر شیروئی للی مہاتسو کی کوریج کرنے جا رہی تھی، اس کی پیشگی اطلاع سلامتی دستوں کے پاس نہیں تھی۔ واقعہ سے متعلق سینئر دفاعی ذرائع بتاتے ہیں کہ سلامتی دستوں نے صرف حکم پر عمل کیا ہے۔ تشدد کے دوران سرکاری ٹرانسپورٹ بسوں پر حملے کی وجہ سے اعلیٰ افسروں کی میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ تشدد کے دوران منی پور اسٹیٹ ٹرانسپورٹ کی بسیں نہیں چلائی جائیں گی۔ اگر چلائی جائیں گی تو اس کی اطلاع پہلے ہی سلامتی دستوں کو دینی ہوگی۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ منگل کو گوالتابی چیک پوسٹ (امپھال سے تقریباً 25 کلومیٹر دور) پر جس بس کو سلامتی دستوں نے روکا، وہ بس منی پور اسٹیٹ ٹرانسپورٹ کی تھی۔ اس میں ڈائرکٹوریٹ آف انفارمیشن اینڈ پبلک ریلیشنز (ڈی آئی پی آر) کے ملازمین اور صحافی شامل تھے لیکن سلامتی دستوں کے پاس اس بس کے شیروئی للی مہوتسو میں جانے کی کوئی پیشگی اطلاع نہیں تھی۔ حکم اور لوگوں کے تحفظ کے پیش نظر سلامتی دستوں نے صرف نام کو چھپانے کے لیے کہا تھا، مہوتسو میں جانے سے روکا نہیں تھا۔
دفاعی ذرائع نے دعویٰ کیا کہ اگر سلامتی دستوں کو پیشگی اطلاع ہوتی تو دیگر گاڑیوں کی طرح اس بس کو بھی وہ نہیں روکتے۔ انہوں نے کہا کہ طلبا اور فن کاروں اور دیگر سیاحوں کو لے کر بسیں اور دیگر گاڑیاں اُکھرول جا رہی ہیں۔ ان میں سے کسی بھی گاڑی کو سلامتی دستوں نے نہیں روکا کیونکہ اس کی اطلاع پہلے سے ہی انہیں تھی۔ ذرائع نے بتایا کہ شاید بات چیت میں کمی رہ گئی، جس وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا۔ تھوڑی مستعدی ہوتی تو اس واقعہ کو روکا جا سکتا تھا۔ سلامتی دستوں کی بس کو روکنے یا پھر صحافیوں کو مہوتسو میں شامل ہونے سے روکنے کی کوئی منشا نہیں تھی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔