منی پور پولیس کوخواتین کا ویڈیو ریکارڈ کرنے والا فون ملا

خواتین کی بغیر کپڑوں کے پریڈ کروانے کے معاملے میں منی پور پولیس نے اب تک ایک نابالغ سمیت 6 ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

منی پور میں 4 مئی کو بغیر کپڑوں کے خواتین کی سرعام پریڈ کرائے جانے کے واقعہ کے حوالے سے پولیس کی کارروائی جاری ہے۔ پولیس اس معاملے میں اب تک 6 ملزمان کو گرفتار کر چکی ہے۔ کارروائی کے دوران ایک ملزم سے موبائل فون برآمد ہوا ہے جس کے بارے میں پولیس کا خیال ہے کہ اس فون کو واقعے کی ویڈیو بنانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ موبائل فون پولیس کی تفتیش میں بہت اہم کڑی ثابت ہو سکتا ہے۔

منی پور پولیس نے 23 جولائی کی رات کو ٹویٹ کیا کہ پانچ گرفتار ملزمان کو 11 دن کے لیے پولیس حراست میں بھیج دیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دیگر ملزمان کی تلاش میں چھاپے مارے جا رہے ہیں۔


نیوز پورٹل ’اے بی پی‘ پر شائع خبر کے مطابق ایک انگریزی روزنامے کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایک فون قبضے میں لے لیا گیا ہے اور اسے سائبر سیل کو بھیج دیا گیا ہے۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ یہ وہی فون ہے جس سے ویڈیو ریکارڈ کی گئی تھی۔

پولیس کی جانب سے گرفتار چھ ملزمان سے تفتیش کی جا رہی ہے تاکہ واقعے میں ملوث دیگر افراد کی شناخت کی جا سکے۔ 4 مئی کو کانگ پوکپی ضلع میں ایک ہجوم نے دو خواتین کو برہنہ کر دیا۔ اس واقعے کی ویڈیو دو ماہ سے زائد عرصے بعد 19 جولائی کو وائرل ہوئی، جس کے بعد ملک بھر میں احتجاج شروع ہوا۔ اس کے بعد 20 جولائی کو پولیس نے اس معاملے میں پہلی گرفتاری کی۔


منی پور میں 3 مئی سے شروع ہونے والے نسلی تشدد میں 160 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔  خبر رساں ایجنسی  کے مطابق ریاست کی صورتحال پر نظر رکھنے والی مختلف سیکورٹی ایجنسیوں کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ تشدد کو زیادہ تر افواہوں اور جعلی خبروں نے ہوا دی تھی۔

حکام کے مطابق 4 مئی کا ایک ہولناک واقعہ جس میں دو خواتین کو برہنہ کر کے پریڈ کیا گیا تھا وہ بھی ایک افواہ کا نتیجہ تھا، جو پولی تھین میں لپٹی ایک خاتون کی لاش کی تصاویر سوشل میڈیا پر منظر عام پر آنے کے بعد پیش آیا۔ اس تصویر کے حوالے سے جھوٹا دعویٰ کیا گیا کہ مقتول کو چورا چند پور میں قبائلیوں نے قتل کیا تھا۔ اس سلسلے میں ایک اہلکار نے بتایا کہ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تصویر قومی راجدھانی میں قتل ہونے والی ایک خاتون کی ہے، لیکن اس وقت تک وادی میں تشدد بھڑک اٹھا تھا اور اگلے روز جو کچھ دیکھا گیا، اس نے انسانیت کو شرمسار کر دیا ۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔