منی پور اسمبلی کو تشدد کے علاوہ سب کچھ یاد ہے: چدمبرم

منی پور قانون ساز اسمبلی کے ایک روزہ اجلاس کے ملتوی ہونے پر طنز کرتے ہوئے کانگریس کے سینئر لیڈر پی چدمبرم نے بدھ کو کہا کہ ایوان کو ریاست میں نسلی تشدد کے علاوہ سب کچھ یاد ہے

 پی چدمبرم، تصویر یو این آئی
پی چدمبرم، تصویر یو این آئی
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: منی پور قانون ساز اسمبلی کے ایک روزہ اجلاس کے ملتوی ہونے پر طنز کرتے ہوئے کانگریس کے سینئر لیڈر پی چدمبرم نے بدھ کو کہا کہ ایوان کو ریاست میں نسلی تشدد کے علاوہ سب کچھ یاد ہے۔ چدمبرم نے ایکس پر لکھا ’’منی پور اسمبلی کا ایک 'اجلاس' ہوا جو 30 منٹ کے التوا کو چھوڑ کر پورے 15 منٹ تک جاری رہا۔ تشدد سے متاثرہ دو گروپوں میں سے ایک کوکی کی نمائندگی کرنے والے قانون ساز اس میں شامل نہیں ہوئے کیونکہ انہیں اپنی حفاظت کا خدشہ ہے۔‘‘

انہوں نے کہا ’’قانون ساز اسمبلی کو جاریہ تشدد کے علاوہ سب کچھ یاد ہے۔ خبروں کے مطابق ایک ہی دن میں دو افراد ہلاک اور سات زخمی ہوئے ہیں۔ پھر بھی منی پور میں آئین کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی ہے۔ وزیر اعلیٰ اور ان کی حکومت اپنی بھاری سکیورٹی والی رہائش گاہوں اور دفاتر میں بیٹھی رہتی ہے۔‘‘

سابق مرکزی وزیر نے وزیر اعظم نریندر مودی پر بھی حملہ کرتے ہوئے کہا، ’’منی پور میں تشدد کو شروع ہوئے 150 دن ہو چکے ہیں اور وزیر اعظم کو ریاست کا دورہ کرنے کا وقت نہیں مل سکا۔‘‘


کانگریس لیڈر کا یہ بیان منی پور اسمبلی کے ایک روزہ اجلاس کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنے کے ایک دن بعد آیا جب اسپیکر تھوک چوم ستیہ برت سنگھ نے کارروائی شروع ہونے کے ایک گھنٹہ کے اندر اندر غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔ ایوان کی کارروائی شروع ہونے کے ساتھ ہی کانگریس کے قانون سازوں نے اجلاس میں کم از کم پانچ دن کی توسیع کا مطالبہ کرتے ہوئے ہنگامہ کیا تھا۔

اپنی کی مقننہ پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعلی اوکرم ایبوبی سنگھ کی قیادت میں کانگریس کے قانون سازوں نے ایوان کو بتایا کہ ریاست میں 3 مئی سے غیر معمولی نسلی تشدد پر بات کرنے کے لیے ایک دن کافی نہیں ہے۔

ایوان کی کارروائی شروع ہونے کے فوراً بعد گزشتہ 120 دنوں کے دوران غیر قبائلی میتئی اور قبائلی کوکی کے درمیان نسلی تشدد میں ہلاک ہونے والوں کے لیے دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔


اسمبلی کا اجلاس اس لیے اہمیت کا حامل تھا کیونکہ 3 مئی کو نسلی کے تشدد میں 170 سے زائد افراد ہلاک اور 700 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، جب پہاڑی اضلاع میں میتئی برادری کے شیڈول ٹرائب (ایس ٹی) کا درجہ دینے کے مطالبے کے خلاف یکجہتی مارچ کا انعقاد کیا گیا تھا۔

نسلی تصادم کی وجہ سے مختلف کمیونٹیز سے تعلق رکھنے والے تقریباً 70000 مرد، خواتین اور بچے بے گھر ہو چکے ہیں اور اب منی پور میں اسکولوں، سرکاری عمارتوں اور آڈیٹوریم میں قائم 350 کیمپوں میں پناہ لے رہے ہیں، جبکہ ہزاروں نے میزورم سمیت پڑوسی ریاستوں میں پناہ لے رکھی ہے۔ اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کی جماعتوں نے لوک سبھا میں منی پور کے معاملے پر مرکز کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی پیش کی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔