گاندھی کا ’ہے رام‘، ’جے شری رام‘ نہیں تھا: نوجوان مصنفین

نوجوان مصنفین نے کہا کہ گاندھی جی اقلیتی برادری کو لے کر بہت فکر مند رہتے تھے خواہ وہ بھارت کے مسلمان ہوں یا پاکستان کے ہندو، انہوں نے مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

نئی دہلی: گاندھی جی کی 150 ویں جینتی پر اختتام پذیر دو روزہ یوتھ رائٹرز کانفرنس میں ملک کے کونے کونے سے آئے نوجوان مصنفین نے کہا کہ بابائے قوم مہاتما گاندھی گئو رکشا کے حامی ضرور تھے لیکن تحفظ گائے کے نام پر انسانوں کے قتل کئے جانے کے سخت مخالف تھے۔ ان کے ’ہے رام‘ اورآج کے ’جے شری رام‘ میں بہت فرق ہے۔ وہ اقلیتی برادری کو لے کر بہت فکر مند رہتے تھے خواہ وہ بھارت کے مسلمان ہو ں یا پاکستان کے ہندو۔ انہوں نے مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا۔ رضا فاؤنڈیشن کی جانب سے ہفتہ کے روز منعقد اس کانفرنس میں تقریبا 50 مصنفین نے شرکت کی۔

یہ پہلا موقع ہے جب گاندھی پر نوجوان مصنفین کی اتنی بڑی کانفرنس ملک میں منعقد کی گئی، چار سیشنز میں منعقد کانفرنس میں گاندھی کی 1909 میں لکھی گئی کتاب ’ہند سوراج‘، ’ستیہ کے ساتھ میرے پریوگ ‘اور ’ پرارتھنا سبھا ‘ پر زبردست تبادلہ خیال ہوا۔ اس کے علاوہ آج کے وقت میں گاندھی پر بھی ایک سیشن میں مباحثے ہوئے۔


کانفرنس میں ہندوستان کی تقسیم کے لئے گاندھی کو ذمہ دار بتائے جانے کی تیکھی تنقید گئی اور آزادی ملتے ہی گاندھی کو فراموش کردینے کی کوششوں کی مذمت بھی کی گئی ۔ کانفرنس میں گاندھی کی موزونیت اور آزادی کو لے کر ان کے خوابوں پر چرچا ہوئی اور تمام مصنفین نے مانا کہ ملک کو حقیقی آزادی ابھی تک نہیں ملی ہے جس کے لئے گاندھی جی شہید ہو گئے۔ دہلی کے علاوہ كولكتہ، بنگلور، رانچی، پٹنہ، وارانسی، ممبئی وغیرہ شہروں کے مصنفین کے علاوہ کچھ غیر ملکی صحافی اور مصنف بھی اس میں شامل ہوئے اور اپنے اپنےخیالات کا اظہار کیا

ہالینڈ ریڈیو سے منسلک صحافی انو شکتی سنگھ نے اپنے مقالہ میں کہا کہ یہ اظہر من الشمس ہے گاندھی جی شاکاہاری(سبزی خور) تھے، گئو سیوا کا انہوں برت بھی لیا ہوا تھا جب راجندر بابو نے ان سے کہا کہ ان کے پاس پچیس سے پچاس ہزار خط گئوكشي بند کروانے کے قانون بنانے کے بابت آئے ہیں تو انہوں نے واضح کہا کہ ہندوستان میں گئو کشی کے خلاف قانون نہیں بن سکتا ۔ یہ صرف ایک مذہب کا ملک نہیں ہے۔ یہ میں کیسے کہہ دوں کہ جو میرا مذہب ہے وہ اس ملک کے تمام لوگوں کا مذہب ہو۔ میں دعائیہ جلسوں میں ہمیشہ کہتا آیا ہوں کہ ہم کسی کو زبردستی اپنا مذہب ماننے کو نہیں کہہ سکتے۔


کانفرنس میں میڈیا ماہر ونیت کمار نے آج کی صحافت پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گاندھی کے زمانے میں بھی جھوٹی خبریں شائع ہوتی تھیں اور افواہیں اڑائی جاتی تھیں اس پرگاندھی نے ایسے اخبارات کی تنقید کی تھی۔ مقررین کا کہنا تھا کہ آج اگر گاندھی ہوتے تو انہیں بھی سوشل میڈیا پرٹرول کے کیا جاتا۔مصور اور شاعر ہ واجدہ خان نے’ ہند سوراج ‘کو کورس میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا تو اعظم گڑھ کی سونی پنڈے نے کہا کہ گاندھی کی ان کتابوں کو پڑھنے سے ان کی ذہنیت اور خیالات میں بھی تبدیلی آئے گی۔

مشہور مورخ سدھیر چندر نے کہا کہ گاندھی کے قتل کے لئے ایک نظریہ ذمہ دار نہیں ہے بلکہ ان کا قتل اس دور کی سیاست اور تاریخی حالات کا منطقی نتیجہ تھا۔ نامور امریکی صحافی وشینٹ شین نے تو پہلے ہی گاندھی کے قتل کا خدشہ ظاہر کر دیا تھا۔ اس موقع پر بہت سے مقررین نے کہا کہ گاندھی کے ’ ہے رام‘ اور آج کے’شری رام‘ میں بہت بڑا فرق ہے۔


گاندھی کے رام اور دشرتھ بیٹے رام نہیں تھے اور یہ بات انہوں نے خود کہی تھی۔ ان کے مذہب میں انسان سب سے اوپر تھا۔ اسمیں کوئی سیاست نہیں تھی۔ آج مذہب کی سیاست چل رہی ہے۔ وہ اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ کانفرنس میں دہلی یونیورسٹی کے ہندی سیکشن کے پرفیسرو صدر گوپیشور سنگھ، پروفیسر اپوروانند کے علاوہ الہ آباد یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر امیتیش، رانچی یونیورسٹی کے راہل سنگھ، بنگلور کی صحافی اور شاعر ہ لولی گوسوامی ،، كولكتہ کی شرمیلا بوہرا جالان وغیرہ نے بھی حصہ لیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔