مہاراشٹر: پرانی پنشن اسکیم کو لے کر سرکاری ملازمین کی ہڑتال جاری، کمیٹی بنانے کی تجویز کو ملازمین نے مسترد کیا

17 لاکھ سے زائد سرکاری ملازمین او پی ایس بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے ہڑتال پر ہیں، شندے حکومت نے ان کے مطالبات پر غور کے لیے تین رکنی کمیٹی بنانے کی تجویز رکھی تھی جسے ملازمین نے مسترد کر دیا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>مہاراشٹر میں سرکاری ملازمین کی ہڑتال جاری</p></div>

مہاراشٹر میں سرکاری ملازمین کی ہڑتال جاری

user

سنتوشی گلاب کلی مشرا

مہاراشٹر میں پرانی پنشن اسکیم (او پی ایس) کو لے کر تقریباً 17 لاکھ سرکاری ملازمین اور حکومت کے درمیان ٹکراؤ برقرار ہے۔ حکومت کے ساتھ ہوئی بات چیت میں ملازمین نے شندے حکومت کی اس تجویز کو مسترد کر دیا جس میں پرانی پنشن اسکیم نافذ کرنے کے لیے تین رکنی کمیٹی بنانے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ حکومت نے کہا تھا کہ ملازمین ہڑتال سے واپس آ جائیں اور اس دوران یہ کمیٹی پرانی پنشن اسکیم کا تجزیہ کر تین مہینے کے اندر اپنی رپورٹ حکومت کو سونپے گی۔

واضح رہے کہ مہاراشٹر کے تقریباً 17 لاکھ سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین 14 مارچ سے ہڑتال پر ہیں۔ ملازمین کا مطالبہ ہے کہ پرانی پنشن اسکیم کو بحال کیا جائے۔ اس ہڑتال میں مہاراشٹر نرسنگ ایسو سی ایشن بھی شامل ہے۔


حکومت کے ساتھ ہوئی بات چیت کے بعد تقریباً 35 سرکاری ملازمین کی کمیٹیوں کے کنوینر وشواس کاٹکر نے حکومت کے ذریعہ پیش کردہ کمیٹی بنانے کی تجویز کو خارج کر دیا۔ کاٹکر نے نئی اور پرانی پنشن اسکیم کے بارے میں تفصیل سے جانکاری دی اور انھوں نے بتایا کہ "مان لو کسی سرکاری ملازم کو 32 ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے اور وہ پندرہ سال بعد ریٹائر ہوتا ہے، تو نئی پنشن اسکیم کے مطابق اسے صرف 1800 سے 2000 روپے پنشن ملے گی۔" پھر انھوں نے کہا کہ یہ بہت بڑا فرق ہے اور جو ملازم اپنی زندگی کی تقریباً دو دہائی سروس میں رہا ہے اس کے ہاتھ میں کیا آئے گا۔ انھوں نے بتایا کہ "ہم حکومت سے پرانی پنشن اسکیم بحال کرنے کے لیے اس لیے کہہ رہے ہیں کیونکہ ہم فکر مند ہیں۔ حکومت کے لیے محنت اور ایمانداری سے کام کرنے والوں کے لیے یہ ناانصافی ہے۔" کاٹکر نے کہا کہ شندے حکومت کو پرانی پنشن اسکیم کی اہمیت سمجھنی چاہیے اور جب تک حکومت اس مطالبہ کو نہیں مانتی ہے، کوئی بھی ملازم کام پر نہیں لوٹے گا۔

قابل ذکر ہے کہ ہڑتال اور احتجاجی مظاہروں کے سبب سرکاری اسپتالوں، اسکولوں و دیگر اہم سرکاری اداروں میں کام پر برا اثر پڑا ہے۔ کاٹکر نے بتایا کہ وہ اعلیٰ افسران کے ساتھ رابطے میں ہیں اور کسی بھی ضروری سروس میں رکاوٹ نہیں ڈالی جا رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ "ہم نے میڈیکل اور محکمہ تعلیم میں کام کرنے والے ملازمین سے کہا ہے کہ وہ ضرورت کے وقت دستیاب رہیں۔ ہم عام لوگوں کو کسی قسم کی دقت نہیں ہونے دینا چاہتے ہیں۔ ہم نے اعلیٰ افسران کو اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کے لیے اپنی دستیابی کے بارے میں بتا دیا ہے۔" کاٹکر مزید کہتے ہیں کہ "ہم ریاست بھر میں احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں۔ مہاراشٹر کے کئی اضلاع کے ملازمین ہڑتال میں شامل ہیں۔ تقریباً 17 لاکھ ملازمین اس وقت ہڑتال پر ہیں۔ کچھ لوگ چھٹی پر تھے، اب وہ بھی واپس آ کر ہڑتال میں شامل ہو رہے ہیں۔"


اس دوران شندے حکومت نے سینئر افسران کو شامل کر ایک کمیٹی بنائی ہے جو ملازمین کی پرانی پنشن اسکیم کے مطالبہ کے بارے میں حکومت کو رپورٹ دے گی۔ اس درمیان ایک وکیل گن رتن سدارورتے نے بامبے ہائی کورٹ میں سرکاری ملازمین کی ہڑتال کے خلاف عرضی داخل کی ہے۔ عرضی کو ہائی کورٹ کے کارگزار چیف جسٹس جسٹس ایس وی گنگاپوروالا اور جسٹس سندیپ مارنے کی بنچ کے سامنے رکھا گیا ہے۔ معاملے کی سماعت جمعہ یعنی 17 مارچ کو ہونی ہے۔

سدارورتے نے بتایا کہ "حکومت نے جب کمیٹی بنا دی ہے تو ملازمین کو کام پر واپس آ جانا چاہیے۔" انھوں نے دعویٰ کیا کہ ہڑتال کے سبب اسکولوں میں بچوں کو مڈ ڈے میل نہیں مل پا رہا ہے اور سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کو دقتیں ہو رہی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔