متنازعہ بیان کے بعد بی جے پی وزیر نے معافی مانگی

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

بی جے پی خواتین کی خودمختاری اور اس کے وقار کی بات تو بہت کرتی ہے لیکن اس کے وزراء اکثر اپنے بیانات سے خواتین کو بے عزت کرتے رہے ہیں۔ مہاراشٹر کی فڑنویس حکومت میں وزیر برائے آبی وسائل گریش مہاجن نے بھی ایک تقریب میں کچھ ایسا ہی کیا۔ انھوں نے چینی مل کے ذریعہ تیار کردہ شراب کا برانڈ نام رکھنے سے متعلق ایک مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کا نام کسی ’خاتون‘ کے نام پر رکھا جائے تو فروخت میں اضافہ ہوگا۔ اس متنازعہ بیان کے بعد ان کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں اور خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنے والے اداروں نے بھی گریش مہاجن کی سرزنش کی۔ حالات ایسےپیدا ہو گئے کہ بالآخر انھیں اپنا بیان واپس لینا پڑا اور اس کے لیے انھوں نے معافی بھی مانگ لی۔

دراصل بروز اتوار نندوربار ضلع میں ایک چینی مل کی جانب سے تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں انھوں نے خواتین کے احترام کا لحاظ نہیں رکھا اور کچھ برانڈیڈ شراب کے نام بتائے جن میں بھنگری، بابی، جولی وغیرہ شامل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس طرح خاتون کےنام والی شراب زیادہ فروخت ہو رہی ہے۔ اسی طرز پر چینی مل کو انھوں نے مشورہ دیا کہ وہ بھی اپنی شراب کا نام کسی خاتون کے نام پر رکھیں جو یقیناً فائدہ مند ثابت ہوگی۔ ساتھ ہی گریش مہاجن نے لگے ہاتھوں یہ بھی کہہ دیا کہ شراب کا نام ’مہاراجہ‘رکھا جائے گا تو لوگ اسے اتنا نہیں پئیں گے جتنا کہ ’مہارانی‘ نام رکھنے کے بعد پئیں گے۔

اپنی تقریر کے دوران گریش مہاجن نے تمباکو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کی فروخت بڑھانے کے لیے بھی خواتین کے نام کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ اپنی تقریر میں انھوں نے خود اپنے بیان کو مذاق پر مبنی قرار دیا لیکن اس طرح خواتین کی بے عزتی سے لوگ کافی ناراض ہوئے۔ ناسک اور شولا پور میں این سی پی نے گریش کے بیان کے خلاف ’جوتا مارو تحریک‘ تک شروع کر دی ہے۔ خواتین سے متعلق کئی اداروں نے ان کے بیان کو انتہائی شرمناک قرار دیا ہے۔ شراب بندی کے لیے جدوجہد کر رہیں ڈاکٹر پارومیتا گوسوامی نے گریش مہاجن کے بیان سے ناراض ہو کر پولس تھانہ میں ان کے خلاف معاملہ بھی درج کر دیا ہے۔ گوسوامی نے تعزیرات ہند کی دفعہ 504 اور 509 کے تحت مہاجن کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔اس معاملے میں پولس نے اپنی طرف سے جانچ شروع کر دی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔