10 فیصد ریزرویشن: مودی حکومت سے عدالت نے 18 فروری تک مانگا جواب

ریزرویشن کے خلاف عرضی میں کہا گیا ہے کہ ریزرویشن کوئی انسداد غریبی پروگرام نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد ان طبقات کو سماجی انصاف مہیا کرانا ہے جو پسماندہ ہیں اور صدیوں سے تعلیم و روزگار سے محروم رہے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

جنرل کلاس کے معاشی طور پر پسماندہ اشخاص کو مرکزی حکومت کے ذریعہ 10 فیصد ریزرویشن دیئے جانے کا اعلان لگاتار تنازعہ کا شکار ہے۔ 21 جنوری کو اس فیصلے کے خلاف داخل ایک عرضی پر مدراس ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ ہائی کورٹ نے اس سلسلے میں مرکزی حکومت سے 18 فروری تک جواب طلب کیا ہے۔ تمل ناڈو میں اپوزیشن پارٹی ڈی ایم کے نے 10 فیصد ریزرویشن دئیے جانے کے خلاف 18 جنوری کو عرضی ہائی کورٹ میں داخل کی تھی۔ پارٹی کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ جنرل کلاس کو دی جانے والی یہ سہولت آئین کے حقیقی ڈھانچے کی خلاف ورزی ہے۔

داخل عرضی میں ڈی ایم کے نے دعویٰ کیا ہے کہ ریزرویشن کوئی انسداد غریبی پروگرام نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد ان طبقات کو سماجی انصاف مہیا کرانا ہے جو پسماندہ ہیں اور صدیوں سے تعلیم و روزگار سے محروم رہے ہیں۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ ’’اس طرح برابری کے لیے محض معاشی صورت حال کو پیمانہ بنانا اور صرف اقتصادی حالات کی بنیاد پر ریزرویشن مہیا کرنا آئین کے حقیقی ڈھانچے کے خلاف ہے۔‘‘ عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’ریزرویشن میں 50 فیصد کی حد بھی آئین کے حقیقی ڈھانچے کا حصہ ہے اور سپریم کورٹ نے کئی معاملوں میں یہ بات کہی ہے۔‘‘

مودی حکومت کے 10 فیصد ریزرویشن کی تنقید کرتے ہوئے عرضی میں لکھا گیا ہے کہ ’’حالانکہ تمل ناڈو پسماندہ طبقہ، شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب (ریاست کے تحت تعلیمی اداروں میں سیٹوں اور ملازمتوں میں تقرری و تعیناتی ریزرویشن) قانون 1993 کے سبب تمل ناڈو میں یہ حد 69 فیصد ہے، اسے آئین کی نویں شیڈولڈ میں ڈال دیا گیا ہے۔‘‘ آگے کہا گیا ہے کہ ’’ریاست میں ریزرویشن 69 فیصد سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ موجودہ ترمیم سے ریزرویشن کو بڑھا کر 79 فیصد کرنے کو ممکن بنایا گیا اور یہ ’غیر آئینی‘ ہوگا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔